• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

سانحہ بلدیہ فیکٹری: متاثرین کیلئے 50 لاکھ ڈالر جاری

شائع February 8, 2017

نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (این ٹی ایف یو) نے جرمن ٹیکسٹائل کمپنی ’کِک ٹیکسٹیلین‘ کی جانب سے سانحہ بلدیہ کے متاثرین کو ادائیگی کے لیے 50 لاکھ ڈالر سے زائد رقم جاری کرنے کی تصدیق کردی۔

این ٹی ایف یو کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم جینیوا میں عالمی ادارہ محنت کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کے درمیان رقم کی تقسیم کا طریقہ کار وضع کرنے کے حوالے سے مشاورت کا آغاز جمعرات سے ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عالمی ادارہ محنت کی پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر انگرِڈ کرِسٹینسن متاثرہ خاندانوں سے مشاورت کریں گی، جس میں این جی اوز کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔‘

یہ فنڈز ’کِک‘ اور ’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ‘ (پائلر) کے درمیان معاہدے کے تحت منتقل اور سانحے میں جاں بحق افراد کے لواحقین میں تقسیم ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ کے مرکزی ملزم کو کوئی ’پچھتاوا‘ نہیں

معاوضے کی اس رقم کی 10 لاکھ ڈالر پہلی قسط سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ عدالتی کمیشن کے ذریعے پہلے ہی متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کی جاچکی ہے۔

رقم کی تقسیم کے مجوزہ طریقہ کار کے حوالے سے ناصر منصور کا کہنا تھا کہ ’متاثرہ خاندانوں کو مقامی اداروں سے واجبات کی وصولی کے دوران تلخ تجربے کا سامنا کرنا پڑا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’متاثرہ خاندان رقم کی تقسیم کے لیے سرکاری تنظیموں جیسا کہ ای او بی آئی کے بجائے عدالتی اداروں کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ رقم کی ادائیگی کا یہ معاہدہ گزشتہ سال ستمبر میں ہوا تھا اور کِک، علی انٹرپرائز کی مصنوعات کی واحد جانی مانی خریدار تھی۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری:'منظم دہشت گردی کا منصوبہ قرار‘

این ٹی ایف یو کے جنرل سیکریٹری نے کہا کہ ’ابتدا میں جرمن کمپنی زرتلافی کی ادائیگی سے انکار کر رہی تھی، لیکن جب اسٹیک ہولڈرز نے این جی اوز کی مدد سے جرمنی میں میڈیا کے ذریعے اس معاملے کو اٹھایا تو اس نے رقم کی ادائیگی کی حامی بھری۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جرمنی کی حکومت نے بھی اس معاہدے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کیا، تاہم واقعے کی ذمہ داری کے حوالے سے اب بھی متاثرین اور کمپنی کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کمپنی نے واقعے کی کسی بھی طرح کی ذمہ داری لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ صرف فیکٹری کے مالکان واقعے کے ذمہ دار ہیں۔‘

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024