پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز کی شرکت
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے کیے گئے اخراجات کے احتساب کیلئے قائم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں پارلیمنٹ کے ایوان بالا سے تعلق رکھنے والے 5 سینیٹرز نے پہلی مرتبہ شرکت کی۔
کمیٹی کے اراکین سینیٹرز میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی شیریں رحمٰن، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مشاہد حسین سید، پاکستان مسلم لیگ (ن)کے چوہدری تنویر، پاکستان تحریک انصاف کے اعظم سواتی اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے ہدایت الرحمٰن شامل ہیں۔
خیال رہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فورم پر حکومتی اخراجات کے آڈٹس کی اسکروٹنی کی جاتی ہے۔
گذشتہ سال 28 جولائی کو سینیٹ میں ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ایوان بالا کے اراکین کی نمائندگی کے حوالے سے قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا، ماضی میں کمیٹی قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل ہوتی تھی۔
سینیٹ کی جانب سے مختلف جماعتوں کے 6 سینیٹرز کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اراکین کے طور پر نامزد کیا گیا، جن میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری بھی شامل ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کی اسکروٹنی
اجلاس کے دوران کمیٹی نے وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کو ہدایت کی کہ وہ پاکستان ایگریکلچر اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) کی جانب سے 13-2012 میں 6 کروڑ 20 لاکھ روپے غبن کی انکوئری کرائیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے اجلاس کے بعد وزارت اور ڈپارٹمنٹ کی آڈٹ رپورٹ بھی منسلک کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت ملکی خزانے کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا جب 14 مارچ 2013 میں اس وقت کے پاسکو کے ایم ڈی ریٹائر میجر جنرل توقیر احمد نے ملینیم انڈسٹریز سے 3360000 تھیلوں کی خریداری کیلئے 9 کروڑ 39 لاکھ کی ادائیگی کا معاہدہ کیا تھا۔
اجلاس میں متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اس معاملے پر ایک انکوئری کریں اور اس کی رپورٹ کمیٹی کے آئندہ کے اجلاس میں پیش کریں۔
متعلقہ وزارت کے سیکریٹری کو بھی ہدایات جاری کی گئیں کہ فوجی حکام کو اس حوالے سے آگاہ کریں اور انکوئری کے بعد ان کے خلاف مناسب کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے کہا جائے۔
آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی ایس سی آئی آر) کی انسپکشن رپورٹ کے مطابق سپلائر کی جانب سے معاہدے کے مندرجات کے برعکس بیگ فراہم کیے گئے ان میں نئے خام مال کی جگہ استعمال شدہ یا ریسائیکل خام مال کا استعمال کیا گیا جبکہ بیگ کا وزن بھی 115 گرام سے کم کرکے 104.5 گرام کردیا گیا۔
آڈٹ حکام کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ 2 جنوری 2014 کو پاسکو کی انتطامیہ کے سامنے رپورٹ ہوا۔
ڈپاٹمنٹل اکاؤنٹ کمیٹی نے اپنے 31 جنوری 2014 کے اجلاس میں انتظامیہ کو اس معاملے کی انکوئری کی ہدایات جاری کی تھیں تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔