ریگولیٹری اداروں کو وزارتوں کے ماتحت کام سے روک دیا گیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سمیت 5 اہم ریگولیٹری اداروں کو ان کی متعلقہ وزارتوں کے احکامات کا پابند کرنے والے حکومتی نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ (ایف اے بی) اور پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کو ان کی متعلقہ وزراتوں کے ماتحت کرنے کے حکومتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔
مذکورہ اداروں کے حوالے سے یہ نوٹیفکیشن دسمبر 2016 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جاری کیا تھا۔
پیر (27 مارچ) کو جاری کردہ مختصر بیان میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو اس بات کا اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اس معاملے کو آئین کے آرٹیکل 154 کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے پیش کریں۔
جسٹس من اللہ کے مطابق آئین کے تحت وفاقی قانون ساز فہرست کے حصہ دوئم میں شامل معاملات پر پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر عملدرآمد کا اختیار واضح طور پر مشترکہ مفادات کونسل کو حاصل ہے۔
عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ وفاقی قوانین کے تحت قائم ریگولیٹری اداروں پر نظر رکھنا اور ان کی رہنمائی مشترکہ مفادات کونسل کے کاموں میں سے ایک ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے جانب سے ‘مختلف، متبادل اور ترمیم شدہ فیصلہ’ سامنے آنے تک یہ پانچوں ریگولیٹری ادارے حکومتی نوٹیفکیشن کے اجراء سے قبل جس طرح کابینہ ڈویژن کے ذریعے وفاقی حکومت کے زیرانتظام تھے اسی طرح کام کرتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ حکومتی نوٹیفکیشن کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سیاسی جماعت پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی (پی جے ڈی پی) کے کارکن محمد نواز نے اپنے وکیل شیخ احسان الدین کے ذریعے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
درخواست گزار نے اپنی درخواست میں وزیراعظم کے مرکزی سیکریٹری، سیکریٹری کابینہ، سیکریٹری پٹرولیم، سیکریٹری پانی و بجلی، سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیکریٹری فنانس اور اوگرا، نیپرا، پی ٹی اے، پی پی آر اے، ایف اے بی اور آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کو فریق مقرر کیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان ریگولیٹری اداروں کو وزارتوں کے ماتحت کرنے کا حکومتی اقدام آئین کے آرٹیکلز 153 اور 154 کی خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ ان آرٹیکلز کے مطابق گیس، بجلی اور پیٹرولیم کے حوالے سے فیصلوں کا اختیار مشترکہ مفادات کونسل کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل شیخ احسان الدین کے مطابق اوگرا کا اختیار حاصل کرکے وفاقی حکومت سی این جی اسٹیشن مالکان کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کی اجازت فراہم کرچکی ہے جو دراصل ریگولیٹری ادارے کا کام ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ اس طرح عام لوگ بڑے کاروباری افراد کے رحم وکرم پر ہوجائیں گے جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ریگولیٹری اداروں کو جوابدہ نہ ہونے کے سبب اضافی اور غیرمنصفانہ منافع حاصل کرسکیں گی، اور یہ ہی صورتحال بجلی، ٹیلی فون اور گیس کی قیمتوں میں بھی دیکھنے کو ملے گی۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ 21 فروری کو لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کے اس فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کو مذکورہ نوٹیفکیشن جاری کرنے سے قبل مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری لینی چاہیئے تھی۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر جہانگیر ترین اور علی عرفان نامی ایک شہری بھی اس معاملے پر اپنی درخواستیں لاہور ہائی کورٹ میں دائر کرچکے ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت نے ان اداروں کو وزارتوں کے ماتحت کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب نیپرا اور اوگرا نے عوامی مفاد کے معاملات بالخصوص ٹیرف کے معاملے پر وزارتوں کے احکامات پر مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔
وزارتوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ریگولیٹری اداروں کے ماحول میں تبدیلی کے بغیر نندی پور پاور پراجیکٹ سمیت ساہیوال کول فائرڈ پاور منصوبے کبھی بھی معاشی طور پر فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکیں گے جبکہ دیگر توانائی کے منصوبوں کو بھی مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران اعلیٰ عدالتوں کے کئی فیصلے حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بن چکے ہیں۔
گذشتہ سال نومبر میں بھی سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو اہم فیصلوں کے اختیار کے حوالے سے دائر کردہ ایک درخواست کو مسترد کیا تھا، عدالت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کابینہ سے اوپر نہیں اور وہ مالی معاملات کے حوالے سے یک طرفہ احکامات جاری نہیں کرسکتے۔