• KHI: Fajr 4:30am Sunrise 5:52am
  • LHR: Fajr 3:42am Sunrise 5:12am
  • ISB: Fajr 3:40am Sunrise 5:14am
  • KHI: Fajr 4:30am Sunrise 5:52am
  • LHR: Fajr 3:42am Sunrise 5:12am
  • ISB: Fajr 3:40am Sunrise 5:14am

ریلوے گالف کلب اسکینڈل: نیب کو تحقیقات جلد مکمل کرنے کی ہدایت

شائع July 27, 2017

اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے گذشتہ 5 سال سے زیر التوا لاہور کے ریلوے گالف کلب (آر جی سی) کے اربوں روپے مالیت کی زمین کی متنازع فروخت کے کیس کی تحقیقات آئندہ 6 ماہ میں مکمل کرنے کے کی ہدایت کردی۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ کی سربراہی میں قائم ہونے والی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے نیب کو ہدایات جاری کیں کہ 2000 میں ہونے والے لاہور کے ریلوے گالف کلب (آر جی سی) اسکینڈل میں تین ریٹائر جنرلز اور ایک ریٹائر بریگیڈیئر کے کردار کی بھی جانچ پڑتال کی جائے۔

آر جی سی کے اس معاملے میں 140 ایکڑ زمین کو کم قیمت میں ایک پرائیویٹ فرم ایم ایس میکس کو فروخت کردیا گیا تھا۔

پاکستان ریلوے کی سیکریٹری پروین آغا نے پی اے سی کو بتایا کہ ریٹائر لیفٹننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی، اس وقت کے وزیر ریلوے (ر) لیفٹننٹ جنرل سعید الظفر، سابق سیکریٹری ریلوے (ر) لیفٹننٹ جنرل حامد حسن بٹ، پاکستان ریلوے کے سابق جنرل مینیجر (ر) بریگیڈیئر اختر اور ریلوے کے سابق ڈائریکٹر آر جی سی کی زمین کی متنازع فروخت میں ملوث ہیں، جس سے قومی خزانے کو 50 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔

مزید پڑھیں: ریلوے کرایوں میں 20 فیصد کمی کا اعلان

وزارت ریلوے نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں ریلوے کی 1 لاکھ 67 ہزار 6 سو 90 ایکڑ کی اراضی میں سے 4 ہزار 1 سو 78 ایکڑ پر غیر قانونی قبضہ کیا جا چکا ہے۔

پاکستان ریلوے کے اعداد شمار کے مطابق 2 ہزار 1 سو 45 ایکڑ اراضی پنجاب میں، 2 سو 52 ایکڑ اراضی صوبہ خیبر پختونخوا میں، 1 ہزار 1 سو 62 ایکڑ اراضی صوبہ سندھ میں جبکہ صوبہ بلوچستان کی 6 سو 19 ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا جا چکا ہے۔

پاکستان ریلوے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک 251 ایکڑ اراضی ملک کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال ہورہی ہے اور 10 ایکڑ اراضی مختلف سرکاری محکموں کے پاس ہے جبکہ ریلوے کی بقیہ زمین تجارتی، رہائشی اور زرعی کاموں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

ریلوے گالف کلب کے آڈٹ اقباس پر بات کرتے ہوئے پی اے سی نے 140 ایکڑ اراضی کو 52 روپے اسکوائر یارڈ کے بجائے 4 روپے اسکوائر یارڈ پر فروخت کرنے اور معاہدے میں 2 کروڑ 16 لاکھ سالانہ کی رقم کو 21 لاکھ 60 ہزار سالانہ میں تبدیل کرنے کے معاملے کو جاننے کی خواہش کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان ریلوے کا شاہدرہ-رائیونڈ گرین کوریڈورمنصوبہ

اس معاملے میں مرتب رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ پرائیویٹ فرم سے معاہدہ کرتے ہوئے پاکستان ریلوے نے لیز کے دورانیے کو 33 سال سے بڑھا کر 49 سال تک کردیا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ میکس کورپ نامی فرم پیشگی اہلیت عمل میں شامل نہیں تھا اور نہ ہی اس فرم نے ٹینڈر بھرنے کے لیے اپنے کاغذات جمع کرائے تھے۔

اسحٰق خاکوانی کی جانب سے 2011 میں سپریم کورٹ میں اس معاملے کی تحقیقات کے حوالے سے ایک درخواست جمع کرائی گئی اور 2012 میں عدالت عظمیٰ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے کیس نیب کے سپرد کردیا تھا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران نیب کے ڈائریکٹر رضوان خان نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان ریلوے میں ٹینڈر کے ریکارڈ کی عدم موجودگی کی وجہ سے تحقیقات مکمل نہیں کی جاسکیں، تاہم تحقیقاتی ٹیموں کو صرف اور صرف ان دستاویزات کی نقل پر انحصار کرنا پڑا تھا۔

مزید پڑھیں: ساڑھے 3 سال کے دوران 17 ٹرین حادثات میں 90 ہلاک

اس موقع پر سید خورشید شاہ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات ان کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ اب تک نیب اس معاملے کو حل کیوں نہیں کر سکی۔

انہوں نے سیکریٹری پاکستان ریلوے سے زمین کی لیز کی محکمانہ انکوائری کرنے اور اس کی رپورٹ پی اے سی میں پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

کمیٹی کے اکثر اراکین نے اس وقت کے وزیر ریلوے اور دو جرنیلوں کو بھی طلب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شفقت محمود نے ریلوے گالف کلب کی زمین کی لیز کے معاملے کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ آر جی سی کی زمین ابتداء میں ابتر حالت میں تھی جسے جرنیلوں نے قابل استعمال بنایا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان افسران کو غیر ضروری طور پر اس معاملے میں کھینچا جارہا ہے۔


یہ خبر 27 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 6 مئی 2025
کارٹون : 4 مئی 2025