• KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • KHI: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am
  • ISB: Fajr 5:00am Sunrise 5:00am

بینظیرقتل کیس: لیاقت باغ سےپیپلزپارٹی رہنماؤں کے 'غائب' ہونے کامعاملہ زیربحث

شائع August 25, 2017

اسلام آباد: راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کیس کی سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں رحمٰن ملک، بابر اعوان اور دیگر کے لیاقت باغ سے 'اچانک غائب' ہوجانے کا معاملہ زیر بحث آیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اصغر علی خان نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اسپیشل پراسکیوٹر خواجہ امتیاز سے استفسار کیا کہ بینظیر بھٹو کی بیک اَپ گاڑی میں سوار رحمٰن ملک، بابر اعوان اور دیگر افراد محترمہ کی گاڑی لیاقت باغ سے روانہ ہونے سے قبل ہی زرداری ہاؤس کیوں چلے گئے؟

واضح رہے کہ سینئر پولیس افسران سمیت استغاثہ کے متعدد گواہان کے بیانات کے مطابق بینظیر بھٹو کی بیک اَپ گاڑی (بلٹ پروف مرسڈیز) سابق وزیراعظم کے قافلے میں کسی ایمرجنسی کی صورتحال کے پیش نظر شامل کی گئی تھی۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ رحمٰن ملک اور بابر اعوان کے علاوہ فرحت اللہ بابر اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیاء بھی بیک اَپ گاڑی میں سوار تھے۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اس کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے بیک اَپ گاڑی میں سوار مسافروں کو فہرست میں شامل نہیں کیا تھا۔

مزید پڑھیں: بینظیر کا قتل: گہرے پُراسرار سائے برقرار

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کی جانب سے استفسار کے بعد پراسیکیوٹر نے انکشاف کیا کہ بینظیر بھٹو کی بدقسمت گاڑی اور بیک اَپ کار کے تقریباً ایک درجن مسافروں میں سے صرف 2 نے کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 164 کے تحت بیانات ریکارڈ کروائے۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بینظیر بھٹو کے قتل سے پہلے ہی بیک اَپ گاڑی جائے وقوع سے روانہ ہوچکی تھی، لہذا انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے اپنے ابتدائی بیان میں بیک اَپ گاڑی کے مسافروں نے بیان دیا کہ انہیں واقعے کے بارے میں کچھ علم نہیں کیونکہ وہ اُس وقت موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔

جب جج نے استفسار کیا کہ بیک اَپ گاڑی اتنی جلد بازی میں کیوں روانہ ہوئی تو پراسیکیوٹر نے بتایا کہ انہیں محترمہ بینظیر بھٹو کے پہنچنے سے قبل اسلام آباد میں واقع زرداری ہاؤس میں انتظامات کروانے تھے۔

خصوصی عدالت کے جج نے استفسار کیا، 'بیک اَپ کار کے مسافروں کا کہنا ہے کہ انہیں محترمہ بینظیر بھٹو کے لیے زرداری ہاؤس کھلوانا تھا، کیا اس کام کے لیے وہاں کوئی ملازم موجود نہیں تھا؟' تاہم پراسیکیوٹر اس سوال کا جواب نہ دے سکے۔

اس سوال کے جواب میں کہ بینظیر بھٹو کے لیے مخصوص کی گئی گاڑی میں کتنے لوگ سوار تھے، پراسیکیوٹر نے اُس وقت کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ریٹائرڈ میجر امتیاز حسین، ناہید خان، صفدر عباسی، مخدوم امین فہیم، خالد شہنشاہ، رزاق میرانی اور ڈرائیور جاوید رحمٰن کے نام بتائے۔

یہ بھی پڑھیں: بینظیر قتل کیس میں سرکاری وکیل فائرنگ سے ہلاک

پراسیکیوٹر کے مطابق مذکورہ افراد میں سے میجر امتیاز حسین اور ڈرائیور جاوید رحمٰن نے گواہ کے طور پر بیان ریکارڈ کروائے۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ مذکورہ ایس ایس پی بینظیر بھٹو کے سیکیورٹی افسر کے طور پر تعینات تھے، ان کے بیان کے مطابق قتل سے قبل اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج اور میجر جنرل احسان نے بینظیر بھٹو سے ملاقات کرکے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ لیاقت باغ میں ریلی سے خطاب نہ کریں کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔

پراسیکیوٹر نے امریکی شہری مارک سیگل کا بیان بھی پڑھ کر سنایا، جو ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا تعلق پیپلز پارٹی رہنما بینظیر بھٹو کے قتل سے جوڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مارک سیگل کا بیان 'جھوٹ کا پلندہ': مشرف

مارک سیگل نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بیان دیا تھا کہ پرویز مشرف 2008 کے عام انتخابات سے قبل بینظیر بھٹو کو پاکستان میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور انہوں نے محترمہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔


یہ خبر25 اگست 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 6 مئی 2025
کارٹون : 4 مئی 2025