اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس احتساب عدالت میں رینجرز تعیناتی سے لاعلم
اسلام آباد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی قومی احتساب بیورو (نیب) ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں دوسری پیشی کے موقع پر کورٹ کے باہر رینجرز کی تعیناتی کے حوالے سے پولیس اور انتظامیہ لاعلم تھی۔
احتساب عدالت پہنچنے والے وکلاء، عدالتی کارروائی کی کوریج کرنے والے میڈیا نمائندگان، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تمام وزراء اور دیگر سیاست دانوں کو رینجرز اہلکاروں نے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) میں داخلے سے روک دیا تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو بھی رینجرز اہلکاروں نے عدالت میں جانے سے روک دیا جس کے بعد یہ معاملہ بگڑ گیا اور انہوں نے اس حوالے سے رینجرز حکام اور اسلام آباد انتظامیہ کو فوری طور پر طلب کر لیا۔
اسلام آباد انتظامیہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے رینجرز کو عدالت کے باہر تعینات ہونے کے احکامات جاری نہیں کیے جبکہ پولیس عدالت کے باہر سیکیورٹی انتظامات کی ذمہ دار تھی۔
مزید پڑھیں: میں کٹھ پتلی وزیر داخلہ نہیں بن سکتا، احسن اقبال
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے 2 اکتوبر کو احتساب عدالت کے باہر رینجرز کی تعیناتی کے لیے نہیں کہا تھا۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز اسلام آباد کی احتساب عدالت کے باہر نواز شریف کے قافلے کے پہنچنے سے قبل ہی رینجرز اہلکار فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس پہنچ گئے اور سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
رینجرز نے G-11 چیک پوسٹ کو بھی بند کردیا جو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی جانے والا راحد راستہ ہے۔
فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس میں 13 مختلف عدالتیں موجود ہیں جن میں احتساب عدالت، اسلام آباد بار کونسل کا مرکزی دفتر، وفاقی انشورنس محتسب جیسے بڑے دفاتر شامل ہیں، لیکن رینجرز اہلکاروں نے ان دفاتر کے افسران کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دی۔
یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار نے احتساب عدالت کے فردجرم کا فیصلہ چیلنج کردیا
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل راجہ ظفر الحق بھی صبح 8 بجے عدالت پہنچے اور کسی بھی طرح فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس جانے میں کامیاب ہوگئے لیکن رینجرز اہلکاروں نے انہیں بھی احتساب عدالت میں جانے سے روک دیا اور اسی طرح دیگر سینئر وکلاء بھی عدالت میں داخلے کا انتظار کرتے رہے۔
قبل ازیں احتساب عدالت کے رجسٹرار اور اسلام آباد انتظامیہ نے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پی) تیار کر لیا تھا جس میں صحافیوں کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی تاہم رینجرز اہلکاروں نے صحافیوں کو بھی ایس او پی کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے روک دیا۔
رینجرز اہلکاروں نے نواز شریف کے ہمراہ آنے والے سیکیورٹی پروٹوکول کی گاڑیوں کو بھی اندر جانے سے روک دیا اور صرف نواز شریف کی گاڑی کو داخلے کی اجازت دی گئی۔
واضح رہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ کمرہ عدالت میں صرف سینیٹر آصف کرمانی جانے میں کامیاب ہوئے کیونکہ وہ نواز شریف کی گاڑی میں ہی موجود تھے۔
میڈیا نمائندوں نے بھی عدالت میں داخلے سے روکے جانے کی شکایت درج کرائی جس کے بعد احتساب عدالت کے جج نے یقین دلایا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں گی اور عدالت کی آئندہ کارروائی کے دوران میڈیا نمائندوں کو کمرہ عدالت میں آنے کی اجازت دی جائے گی۔
یہ خبر 03 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی