’میری واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں‘
اسلام آباد: سابق وزیرِاعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے اپنی وطن واپسی کے حوالے سے افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی واپسی اسٹیبلشمنٹ سے کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنسز کے سلسلے میں پیش ہونے سے قبل میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
سابق وزیرِاعظم نے کہا کہ کہ 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے بعد وہ عدلیہ کی آزادی کے لیے کھڑے ہوئے، تاہم ایسی عدلیہ کی حمایت نہیں کرتے جو آمروں کی حمایت کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہے۔
مزید پڑھیں: نواز شریف، صاحبزادی اور داماد کے ہمراہ احتساب عدالت میں پیش
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی ڈیل کا حصہ نہیں بن رہے نہ ہی این آر او کے تحت مقدمے کی سماعت سے فرار حاصل کر رہے ہیں۔
نواز شریف نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ 2007 کی طرح 2017 میں بھی این آر او چاہتے ہیں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ ایسی کسی ڈیل کا حصہ بننے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
واضح رہے کہ سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان ڈیل کے نیتجے میں این آر او وجود میں آیا تھا۔
نواز شریف نے کہا کہ انہیں کوئی ٹیکنو کریٹ کی حکومت بنتے ہوئے نظر نہیں آرہی، اس طرح کی افواہیں گذشتہ 70 برسوں سے سنتے آرہے ہیں۔
پرویز مشرف کی 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی اور آئین کی معطلی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی نافذ کر کے باوجود سابق صدر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے اپنا نام نکلوا کر بیرون ملک چلے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: افسوس ہے دوقدم آگے جاتے ہیں تو چار قدم پیچھے آتے ہیں، نواز شریف
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک میں ایک ڈکٹیٹر اور منتخب نمائندے کے ساتھ علیحدہ علیحدہ رویہ رکھا جاتا ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ مجھے کیوں پیشیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی، شاید میرا قصور یہ تھا کہ میں نے پاکستان کو نیوکلیئر پاور بنایا، لوڈشیڈنگ میں کمی کی، ملک میں امن بحال کیا خاص طور پر کراچی میں، معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔
3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس دن کو قانون دان ’یومِ سیاہ‘ کے طور پر مناتے ہیں جبکہ ہم نے 70 برسوں میں کئی مرتبہ یومِ سیاہ دیکھا لیکن کیا کبھی ہم نے اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی؟
پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے صرف اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا، مجھے یہ تک نہیں معلوم کہ ریفرنس میں میرے خلاف کیا مخصوص الزامات لگائے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کی نیب ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواست سماعت کیلئے منظور
احستاب عدالت میں اپنے مقدمے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سیکڑوں مقدمے احستاب عدالت میں ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک’سپر جج‘ ٹرائل کورٹ میں ہونے والی سماعتوں کی نگرانی کررہا ہے تو میرے مقدمے ہی ایسا کیوں ہورہا ہے؟
انہوں نے سوال کیا کہ جب عدلیہ منصفانہ ٹرائل نہ کرے تو پھر توہینِ عدالت کا مرتکب کون ہوا؟
سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعتوں کے درمیان ہائی کورٹ کے کچھ ججوں کی خدمات حاصل کرنے پر انہوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ طریقہ کار شفاف، مناسب اور کھلا ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیں : ’پارٹی کی قیادت نواز شریف ہی کریں گے‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمیں اگے بڑھنا ہے تو ہمیں ایسی چیزیں خفیہ نہیں رکھنی چاہیے بلکہ ان کی کھلی سماعت ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان نے پہلے ہی معاملات کو خفیہ رکھنے کی بڑی قیمت چکائی ہے تاہم وقت آنے والا ہے جب خفیہ رکھنے کو کچھ نہیں ہوگا اور سب کچھ عوام کو معلوم ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے بیان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ ایک ایسے موقع پر جب تمام سیاسی جماعتوں میں اتحاد کی ضرورت ہے ایسے میں زرداری صاحب ایسا بیان کسی کو خوش کرنے کے لیے دے رہے ہیں۔
شریف خاندان میں اختلاف کے بارے میں خبروں کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’شریف خاندان میں اختلاف پیدا کرنے کی کسی کی خواہش تو ضرور ہوسکتی ہے لیکن یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی‘۔