• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:07pm
  • LHR: Zuhr 11:59am Asr 4:47pm
  • ISB: Zuhr 12:04pm Asr 4:55pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:07pm
  • LHR: Zuhr 11:59am Asr 4:47pm
  • ISB: Zuhr 12:04pm Asr 4:55pm

اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کا گواہ اپنی سروس کی بحالی میں ناکام

شائع December 31, 2017

سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) استغاثہ کے گواہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو اپنی سروس کی بحالی کے لیے قائل کرنے میں ناکام ہوگئے۔

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے سابق ڈائریکٹر قبوس عزیز ان 28 استغاثہ کے گواہان میں شامل ہیں جنہیں نیب نے سابق وزیر خزانہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ ریفرنس میں بطور ثبوت پیش کرنے کے لیے فہرست میں شامل کیا تھا۔

احتساب عدالت نے قبوس عزیز کو پہلے بھی طلب کیا تھا لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے مقدمے کی سماعت روکنے کے باعث انہوں نے ابھی تک گواہی نہیں دی۔

مزید پڑھیں: ملامنصورشناختی کارڈمعاملہ:نادرا کا’اہم کردار‘گرفتار

واضح رہے کہ قبوس عزیز کو نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر رواں سال اگست میں برطرف کردیا گیا تھا جبکہ ان کی معطلی ذرائع ابلاغ میں اس وقت نمایاں ہوئی جب ان کا نام اسحٰق ڈار کے خلاف گواہوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

انہوں نے اثاثہ جات ریفرنس میں تحقیق کے دوران نیب کو اسحٰق ڈار کے اہل خانہ کے حوالے سے کچھ مخصوص ریکارڈ فراہم کیا تھا۔

درخواست میں قبوس عزیز نے یہ درخواست نہیں کی کہ انہیں نیب کو دستاویزات فراہم کرنے پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا بلکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نادرا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے درمیان تنازعات کے باعث ان کو ملازمت کی قیمت چکانا پڑی۔

انہوں نے کہا کہ نادرا حکام کا خیال تھا کہ ان کے ڈپٹی چیئرمین سید مظفر علی سے اچھے تعلقات تھے اور کچھ سینئر حکام نے ان سے مظفر علی کو استعفے پر قائل کرنے کے لیے کہا تھا۔

قبوس عزیز نے کہا کہ مظفر علی کو استعفے کے لیے قائل کرنے میں ناکامی ان کی اچانک برطرفی کی وجہ تھی تاہم وہ اپنی درخواست میں عدالت کو قائل کرنے میں ناکام رہے اور ان کی درخواست مسترد کردی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2016 میں طالبان کے سابق سربراہ ملا منصور سمیت افغان باشندوں کو کمپیوٹرائز قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) جاری ہونے پر تنقید کا سامنا کرنے اور دیگر مالیاتی معاملات کے دوران انتظامات کو بہتر طریقے سے انجام دینے پر سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مظفر علی کی ڈائیکٹر جنرل سے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر ترقی کی سفارش کی تھی۔

اگرچہ ایک شہری کی جانب سے اس ترقی کو چیلنج کیا گیا لیکن نادرا نے چوہدری نثار کے وزیر داخلہ رہنے تک اس کی مخالفت نہیں کی۔

چوہدری نثار کے عہدے سے ہٹنے کے بعد نادرا کے چیئرمین نے 8 ستمبر 2017 کو لاہور ہائی کورٹ میں بیان دیا کہ مظفر علی کو سابق وزیر داخلہ کی سفارش پر تقرری دی گئی تھی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس تقرری کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، جس کے بعد ہائی کورٹ نے ڈپٹی چیئرمین کو معطل کردیا۔

اپنی معطلی کے فیصلے کو مظفر علی نے سپریم کورٹ میں چیلنچ کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی بطور ڈپٹی چیئرمین تقرری کے بعد ایک نامعلوم شخص نے نادرا کے تمام ارکان کی تقرری کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنچ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ملامنصورکو پاکستانی پاسپورٹ یاشناختی کارڈ جاری نہیں ہوا،وزیرداخلہ

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ نادرا کے چیئرمین، جو نادرا بورڈ کے رکن بھی ہیں، ان کی تقرری کے علاوہ تمام ارکان کی تقرری کو چیلنچ کیا گیا، جو نادرا چیئرمین کی درخواست گزار سے ملی بھگت کو ظاہر کرتا ہے۔

سپریم کورٹ نے ابتدائی سماعت کے بعد کیس کو لاہور ہائی کورٹ کے حوالے کردیا، سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ چونکہ لاہور ہائی کورٹ مظفر علی کی برطرفی کا عبوری فیصلہ دے چکا ہے اور ان کی ترقی کی پٹیشن ابھی بھی زیر التوا ہے تاہم یہ مناسب ہوگا کہ لاہور ہائی کورٹ کا حتمی فیصلہ کرنے دیا جائے۔


یہ خبر 31 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 7 مئی 2025
کارٹون : 6 مئی 2025