پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار - 2

اس فیچر کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
فضل کا آخری گیت :
لاہور کے فضل محمود نے پہلے ہی سے ایک کامیاب سوئنگ بولر کی حیثیت سے ٹیم میں اپنی پوزیشن پکّی کر لی تھی، جب انہوں نے کاردار کی جگہ پاکستانی کپتان کی پوزیشن سنبھالی-
حالاں کہ ایک بولر کی حیثیت سے انکی کار کردگی ہی، اپنے ساتھیوں کے درمیان انکی عزت کی ضمانت تھی، لیکن پریس مستقل انکی قائدانہ صلاحیتوں کا کاردار کے ساتھ موازنہ کرتے رہے-
حقیقت میں کاردار کا استعفیٰ کے بعد، اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے، کاردار کو کپتان بنے رہنے کے لئے اصرار کیا تھا- کاردار نے نرمی کے ساتھ انکار کردیا اور محمود 31 سال کی عمر میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے دوسرے کپتان بن گۓ-

جاذب نظر، پر کشش اور انتہائی مشہور، فضل ٹیم کی جارحانہ پیشقدمی کی قیادت کر رہے تھے اور تقریباً اکیلے ہی پاکستان کو کئی ٹیسٹ جتوانے کی وجہ بنے-
اپنی پہلی سیریز میں بطور کپتان، فضل کی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو 2-1 سے ہرا دیا-
لیکن ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر بے اطمینانی اس وقت شروع ہوئی جب 1959 میں مہمان آسٹریلیا سے پاکستان 2-0 سے ہار گیا اور 1961 میں انڈیا کے خلاف 5 ٹیسٹ سیریز میں مقابلہ برابر رہا-

پریس کا یہ ماننا تھا کہ کپتانی کا بوجھ، فضل کی کار کردگی پر اثر انداز ہو رہا ہے اور یہ کہ ٹیم کو ایک زیادہ جارح کپتان کی ضرورت ہے- دوسرے لفظوں میں پنڈتوں کا یہ کہنا تھا کہ ٹیم کو ایک دوسرا کاردار چاہیے-
اور پھر 1961 میں کرکٹ بورڈ نے فضل کو اچانک کپتانی سے ہٹا دیا-
پاکستانی پریس کے کچھ حصّوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ٹیم کے کچھ کھلاڑی، فضل پر اقربا پروری اور ٹیم کے انتخابی معاملات میں جانبداری کا الزام عائد کر رہے ہیں-
جب 1962 میں انگلینڈ کے دورے کے لئے فضل کو منتخب نہ کیا گیا تو وہ بورڈ کے فیصلے پر ناراض ہو گئے اور کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی-

پاکستانی کرکٹ کے شائقین، ٹیم کے اہم بیٹس مین حنیف محمد کو کپتان بنائے جانے کی توقع کر رہے تھے- لیکن کرکٹ بورڈ نے، جو ابھی تک ایک اور کاردار کی تلاش میں تھا، 24 سالہ درمیانی حیثیت کے بیٹس مین، جاوید برکی کو کپتان بنا کر سب کو حیرت میں ڈال دیا-
لاہور سے تعلق رکھنے والے برکی، آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ، انتہائی لائق بلے باز تھے- انہوں چند ہی ٹیسٹ میچ کھیلے تھے جب 1962 میں انہیں انگلینڈ کے دورے کے لئے کپتانی کرنے کو کہا گیا-
وہ دورہ انتہائی برا تھا- برکی کو ایک ایسی ٹیم کی کمان دی گئی جو دو کیمپوں میں بٹ گئی تھی- ایک سائیڈ ناراض حنیف کی حمایت کر رہی تھی اور دوسری نوجوان برکی کی-
جب دورے پر پاکستانی جارحانہ پیش قدمی انجریز کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تو بورڈ نے فضل محمود کو ریٹارمنٹ سے باہر آنے کی درخواست کی- وہ مان گئے اور انگلینڈ بھیج دیے گئے- فضل کو انگلینڈ بھیجنے کا فیصلہ، برکی سے مشورے کے بغیر کیا گیا-
انگلینڈ میں فضل کی موجودگی کو برکی اور اس کے حمایتیوں نے پسند نہیں کیا-

انہیں ڈر تھا کہ فضل، حنیف کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے نوجوان (اور جدوجہد میں لگے) برکی سے اپنی کپتانی واپس لینے کی کوشش کریں گے-
حالانکہ برکی نے فضل کو پانچویں اور آخری ٹیسٹ میں 63 اوورز دینے کے لئے استعمال کیا، لیکن دونوں کے درمیان بات چیت بند تھی- برکی کو یہی گمان تھا کہ بورڈ نے فضل کو اسے ہٹانے کے لئے بھیجا ہے-
ایسا کچھ بھی نہ ہوا- پاکستان نے وہ سیریز 4-0 سے ہار دی اور فضل، 35 سال کی عمر میں واپس ریٹائر ہو گئے-
1970 کے آخر میں فضل، کرکٹ کمنٹیٹر بن گۓ اور 1978 کے پاک-انڈیا سیریز کے دوران، سابقہ بیٹس مین لالہ امرناتھ کے ساتھ ان کے دوستانہ اور برجستہ مکالمے، ٹی وی ناظرین میں بہت مقبول ہوے-

بہرحال، کمنٹیٹر کی حیثیت سے انکا کیریئر بہت مختصر رہا کیوں کہ وہ مختلف کرکٹ اصطلاحات کے لئے اپنے ایجاد کردہ الفاظ استعمال کرتے تھے- یہ مانا جاتا ہے کہ فضل نے ہی رنز کے لئے اردو اصطلاح" رنزیں" ایجاد کی تھیں-
مثال کے طور پر لاہور میں 1978 کی سیریز میں انہوں نے، جارح بولر عمران خان کی ایک بال اور اس کے نتائج کچھ اس طرح بیان کیے "عمران خان بھاگتے ہوے آۓ، گیند کرائی، ٹپا بال، وشوناتھ کے سر کے اوپر والا شاٹ، فیلڈ باز گیند کے پیچھے، پر چار رنزیں-"

اپنے کیریئر کے دوران وہ مذہبی نہیں تھے لیکن 1980 کے آخر میں انہوں نے اسلامی تبلیغی تنظیم، تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی-
وہ 2005 میں 77 سال کی عمر میں انتقال کر گئے-
ندیم ایف پراچہ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (8) بند ہیں