• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کائناتی راز بلیک ہول کیا ہے اور اسے دیکھنا ممکن ہے؟

شائع April 21, 2018 اپ ڈیٹ April 22, 2018
بلیک ہول کا ایک تصوراتی خاکہ — شٹر اسٹاک فوٹو
بلیک ہول کا ایک تصوراتی خاکہ — شٹر اسٹاک فوٹو

گزشتہ ماہ اس صدی کے مشہور سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کی وفات کے بعد مختلف سائنسی ویب سائٹ پر بہت سے کالم چھپے جن میں ان کی بلیک ہول پر ریسرچ کو خوب سراہا گیا۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ بلیک ہول کیا ہے؟

سائنس کی دنیا میں انہیں کبھی تو دوسری کائنات میں جانے کا راستہ کہا جاتا ہے اور کبھی موت کا گڑھا۔ کیا بلیک ہول کا رنگ واقعی سیاہ ہے یا پھر اس سیاہ پردے کے پیچھے بھی رازوں کی دنیا چھپی ہے؟

جب کوئی ستارہ اپنی زندگی کے آخری حصّے میں ہوتا ہے تو وہ پھٹ جاتا ہے یا پھر بلیک ہول میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی ستارہ بلیک ہول اس وقت بنتا ہے جب اس کے تمام مادے کو چھوٹی جگہ میں قید کردیا جائے۔ اگر ہم اپنے سورج کو ایک ٹینس بال جتنی جگہ میں مقید کردیں تو یہ بلیک ہول میں تبدیل ہوجائے گا۔

بلیک ہول میں تھوڑی جگہ پر انتہائی زیادہ مادے کی وجہ سے اس کی کشش اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ روشنی، جو اب تک کی تحقیقات کے اعتبار سے اس کائنات کی سب سے تیز ترین چیز ہے، بھی اس سے فرار نہیں ہوسکتی۔

بیشتر افراد میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اگر ہمارا سورج بلیک ہول بن گیا تو یہ نظام شمسی کے تمام سیاروں کو نگل لے گا لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کے مطابق اگر سورج بلیک ہول بن بھی گیا تو تب بھی زمین اور باقی سیارے اپنے مدار میں بےضرر چکر لگاتے رہیں گے۔

بلیک ہول کی کشش کا دارومدار اس میں موجود مادے کی مقدار پر ہوتا ہے اور جیسا کہ سورج کے بلیک ہول بننے کے بعد بھی اس میں مادے کی مقدار وہی رہے گی اس لئے سیاروں پر لگنے والی کشش ثقل بھی وہی رہے گی۔

چونکہ بلیک ہول بنے کے بعد سورج کا حجم انتہائی کم ہو جائے گا تو اس کے گرد ایک حد تک کشش بہت زیادہ ہوجائے گی کہ اگر کوئی بھی چیز اس حد کو پار کرجائے تو پھر اس کا واپس آنا ناممکن ہو جائے گا۔ بلیک ہول کے گرد اس حد کو فلکیاتی اصطلاح میں "ایونٹ ہورائزن" کا نام دیا جاتا ہے۔

اگر ہم روشنی کی بات کریں تو یہی ایک ذریعہ ہے جو ہماری آنکھ محسوس کرتی ہے اور ہمیں وہ چیز دکھائی دیتی ہے۔ اس پر بعض لوگوں کا یہ سوال ہوتا ہے کہ اگر بلیک ہول کی ایونٹ ہورائزن روشنی بھی واپس نہیں آتی تو پھر سائنسدان بلیک ہول کی نشاندہی کس طرح کرتے ہیں؟

اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ آج تک سائنسدانوں نے نہ کبھی بلیک ہول کو دیکھا ہے اور نہ ہی آنے والے وقتوں میں دیکھ سکیں گے لیکن ہاں حال ہی میں ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں ہزاروں بلیک ہول دریافت کئے ہیں۔

جی ہاں! یہ بات بیسویں صدی سے زیر بحث تھی کہ سپر میسو بلیک ہول، جو کہ ایسے بلیک ہول کو کہا جاتا ہے جس میں ہمارے سورج کی طرح کے 40 لاکھ ستارے سما سکتے ہوں، کے آس پاس بہت سے چھوٹے بلیک ہول بھی موجود ہوتے ہیں لیکن سائنسدانوں نے اس بات کا مشاہدہ نہیں کیا تھا لہذا اس بات کو ثابت قرار دینا مشکل تھا لیکن چند ہفتے پہلے سائنسدانوں نے ہماری اپنی کہکشاں کے مرکز میں موجود سپر میسو بلیک ہول کے گرد ہزاروں چھوٹے بلیک ہول گرد محور دریافت کئے ہیں۔ اس دریافت کے بات یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ ایسے بڑے بلیک ہول کے گرد چھوٹے بلیک ہول بھی موجود ہوتے ہیں۔

سپرمیسو بلیک ہول کا ایک خاکہ — فوٹو بشکریہ ناسا
سپرمیسو بلیک ہول کا ایک خاکہ — فوٹو بشکریہ ناسا

یہ دریافت سائنسدانوں نے کہکشاں کے مرکزی بلیک ہول کی تصویر لیتے وقت کی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب بلیک ہول مادے کو نگلتا ہے تو ایونٹ ہورائزن سے پہلے، شدید کشش کی وجہ سے مادہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور انرجی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں ایونٹ ہورائزن کے بہت قریب ایکس ریز پیدا ہوتی ہیں جسے زمین پر موجود ایکس رے دوربینوں کی مدد سے تصویر میں قید کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہم بلیک ہول کو دیکھتے ہیں اور ان چھوٹے بلیک ہول کی دریافت بھی اسی طرح ہوئی۔

یہ چھوٹے بلیک ہول ہمارے سورج سے دس گنا زیادہ مادہ رکھتے ہیں جبکہ مرکزی بلیک ہول چالیس لاکھ سورج اپنے اندر قید کرسکتا ہے۔

یہ ریسرچ 'نیچر' نامی جزیرے میں شائع ہوئی جس میں چک ہیلے، جو کہ کولمبیا یونیورسٹی میں ماہر فلکیات ہیں، کا کہنا تھا کہ "کہکشاں کا مرکز بہت زیادہ عجیب جگہ ہے، اس لئے بہت سے لوگ اس کا مطالعہ کرنے کو پسند کرتے ہیں"

بحر حال کائنات میں جتنا گہرائی میں انسان دیکھے گا اتنا اس کائنات کے بارے میں یہ خیال کرے گا کہ جیسے ابھی تو شروعات ہے کیونکہ کائنات کے بہت سے راز ایسے ہیں جن پر سے پردہ اٹھنا ابھی باقی ہے۔


سید منیب علی پنجاب کالج لاہور کے طالب علم، "لاہور آسٹرونومیکل سوسائٹی (LAST)" اور "دی پلانیٹری سوسائٹی (TPS) کے رکن اور علم فلکیات کے شوقین ہیں۔

سید منیب علی 2013 سے آسمان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، علم فلکیات کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے، ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

AHMED BAJWA Apr 21, 2018 01:16pm
Very Informative. Buhut A'ala. My Regards
arfan Apr 21, 2018 01:51pm
Tu iskaa matlb hum har ek sitary ko black hole kaa naam day skty hain ?
ڈاکٹر شعیب Apr 21, 2018 07:28pm
دلچسپ اور حیرت انگیز
Syed Muneeb Ali Apr 22, 2018 06:24pm
@arfan اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ستارے کو بلیک ہول بولیں، بلکہ کچھ اس طرح سمجھ لیں کہ جب ستارہ آخر عمر میں ہوتا ہے تو دو حالتیں ہو سکتی ہیں: یا تو وہ سپرنووا بن جائے گا (یعنی اس کا حجم بڑا ہو جائے گا اور وہ پھٹ جائے گا) یا پھر وہ چھوٹا ہو کر بلیک ہول میں تبدیل ہو جائے گا. اگر سوال اٹھتا ہے کہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ کونسا ستارہ بلیک ہول بنے گا اور کونسا سپرنووا بنے گا؟ تو اس کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ "اگر کسی ستارے کی کمیت (مادے کی مقدار) ہمارے سورج سے 1.4 گنا کمیت، جس کو چندرا شیکھر حد بھی کہا جاتا ہے، سے زیادہ ہوگی تو وہ ستارہ بلیک ہول بنے گا اور اگر اس سے کم مادہ ہوگا تو وہ سپرنووا بنے گا". اس کے علاوہ آپ کے ذہن میں کوئی اس بارے میں سوال ہے تو آپ میری ای میل پر کسی بھی وقت پوچھ سکتے ہیں. شکریہ.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024