• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

پیپلز پارٹی کا ووٹ مسلم لیگ ضیاء کیلئے؟

شائع July 20, 2018

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان کے سابق فوجی صدر مرحوم ضیاء الحق کے درمیان اختلافات کی تاریخ توملک کے ہر سیاسی شعور رکھنے والے شخص کو ہوگی۔

تاہم پیپلز پارٹی کے نہ صرف ضیاء الحق بلکہ ان کے صاحبزادے اور پاکستان مسلم لیگ ضیاء (پی ایم ایل زیڈ) کے سربراہ اعجاز الحق سے بھی ہمیشہ اختلافات رہتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے نظریاتی اختلافات صرف ضیاء الحق اوران کے صاحبزادے تک ہی محدود نہیں، اس پارٹی کے سیاسی اختلافات تقریبا ہر فوجی حکمران اور ان کے نظریات پر چلنے والے سیاستدانوں سے بھی ہوتے ہیں۔

لیکن گزشتہ روز میڈیا میں ایک خبر شائع ہوئی کہ پنجاب کے شہر بہاول نگر سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 169 میں پیپلز پارٹی کے کارکنان مسلم لیگ ضیاء کو ووٹ دیں گے۔

میڈیا میں شائع خبر کے مطابق این اے 169 پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ضیاء نے اتحاد کرلیا۔

میڈیا نے خبر میں ایک مقامی رہنما کی مختصر پریس کانفرنس چلائی، جس میں ایک شخص یہ اعلان کرتا نظر آیا کہ انہوں نے مسلم لیگ ضیاء سے اتحاد کرلیا اور ان کے کارکنان اعجاز الحق کو ووٹ دیں گے۔

اس مختصر ویڈیو میں جس رہنما کو پریس کانفرنس کرتے دکھایا گیا، وہ پیپلز پارٹی کا نام لیے بغیر ہی مسلم لیگ ضیاء کی حمایت کا اعلان کرتے دکھائی دیے۔

تاہم خبر میں دعویٰ کیا گیا کہ این اے 169 پر انوکھا اتحاد قائم ہوگیا، جس میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ضیاء سے ہاتھ ملالیا۔

اسی خبر کو بنیاد بنا کر ملک کے دیگر نشریاتی اداروں نے بھی یہی خبر شائع کی۔

خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

خبر سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی میں سب سے زیادہ تنقید صوبہ سندھ کے افراد نے کی، فیس بک اور ٹوئٹر پر سندھ کے افراد نے لکھا کہ جس پارٹی کے سربراہ کو جس فوجی آمر نے تختہ دار تک پہنچایا، آج اسی پارٹی نے اسی شخص کے بیٹے سے ہاتھ ملالیا۔

اس خبر کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا صارفین نے سندھی میں کی گئی پوسٹس کے ذریعے صوبے کے لوگوں کو تجویز دی کہ وہ اس فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کا بائیکاٹ کریں۔

میڈیا اور سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہونے کے بعد صحافی اور ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) مرتضیٰ سولنگی نے تجزیہ نگار مظہر عباس کی ٹوئیٹ شیئر کرتے ہوئے پی پی سینیٹر شیری رحمٰن سے سوال کیا کہ کیا یہ خبر درست ہے؟

جس پر جلد ہی شیری رحمٰن نے اپنی ٹوئیٹ کے ذریعے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے خبر کو جھوٹا قرار دیا۔

شیری رحمٰن نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا کہ اس خبر میں کوئی بھی صداقت نہیں، پیپلز پارٹی نے ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق کی حمایت نہیں کی۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پارٹی نے کسی بھی مقامی رہنماء کو کسی بھی تشدد پسند گروپ یا تنظیم سے اتحاد کرنے کی اجازت نہیں دی۔

خیال رہے کہ اعجاز الحق جس حلقے این اے 169 سے انتخاب لڑ رہے ہیں، وہاں پر مجموعی طور پر 11 امیدوار میدان میں اتریں گے، جن میں پیپلز پارٹی کا کوئی بھی امیدوار شامل نہیں۔

اس حلقے سے نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا بھی کوئی امیدوار میدان میں نہیں اترے گا۔

یہ خبریں پہلے ہی آ چکی ہیں کہ اس حلقے پر پی ٹی آئی اور اعجاز الحق نے اتحاد کیا ہے۔

دیگر امیدواروں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نورالحسن تنویر، متحدہ مجلس عمل کے عشرت منظور، تحریک لبیک پاکستان کے احمد خان کاموکا، آل پاکستان مسلم لیگ کے محمد یوسف غوری اور پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے ابرار اعظم شامل ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024