پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار - 3
یہ اس فیچر کا تیسرا حصہ ہے- پہلے اور دوسرے حصے کو پڑھنے کے لئے کلک کریں-
سعید کی قلابازیاں:
حیرت کی بات ہے کہ کرکٹ شائقین کی بڑی تعداد کو سعید احمد یاد نہیں-
1958 میں، 21 سال کی عمرمیں انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا اور جلد ہی ایک کار آمد، دوسرے بیٹس مین کی حیثیت سے اپنی جگہ مستحکم کر لی-
2000 رنز سکور کر لینے کے بعد سعید خود کو اگلا پاکستانی کرکٹ کپتان تصور کرنے لگے- اس حوالے سے سعید کا خواب پورا ہوا، جب انگلینڈ کے دورے سے کچھ پہلے 1968 میں، کرکٹ بورڈ نے انہیں حنیف محمد کی جگہ کپتان بنایا-
حالانکہ اس سیریز کا اختتام 0-0 سے برابر رہا لیکن کھلاڑیوں اور شائقین دونوں کا یہ خیال تھا کہ سعید ایک اعلانیہ دفاعی کپتان تھے- بورڈ نے بھی یہ محسوس کیا کہ انہوں نے کھلاڑیوں کے ساتھ کسی قسم کا تعلق اور ہمدردی قائم کرنے کی کوشش نہیں کی-
1969 میں انکی جگہ، انتخاب عالم کو دے دی گئی-
نیوزی لینڈ کے خلاف 1969 کی سیریز میں سعید شامل نہیں ہوے- وہ انگلینڈ منتقل ہو گۓ اور وہاں جا کر اس وقت کی پرشباب راتوں کے شوقین ہو گۓ-
1971 میں پاکستان کے دورہ انگلینڈ کے دوران واپس آۓ لیکن تین میں سے صرف ایک ٹیسٹ کے لئے منتخب ہوے-
پاکستان وہ سیریز 2-0 سے ہار گیا اور سعید نے دوبارہ کپتان بننے کے لئے کوششیں شروع کر دیں-
1972-73 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دوروں کے لئے کپتانی انتخاب عالم کے پاس ہی رہی اور سعید ٹیم کے ساتھ مڈل-آرڈر بیٹس مین کی حیثیت سے سفر کرتے رہے-
آسٹریلیا میں کھیلے جانے والے 3 ٹیسٹ، سبز سطح والی تیز وکٹ پر کھیلے گۓ-
تیسرے ٹیسٹ میں سڈنی والی وکٹ سب سے زیادہ سبز تھی- ٹیسٹ سے ایک دن پہلے انتخاب عالم نے سعید کو بتایا کہ انہیں اپنی پرانی دوسری پوزیشن پر کھیلنا ہو گا-
سعید نے انکار کر دیا- انکا کہنا تھا کہ وہ چھٹی پوزیشن پر زیادہ اچھا کھیل لیں گے پر انتخاب عالم نہیں مانے-
جب ٹیسٹ سے دو گھنٹے پہلے، ٹیم سڈنی کرکٹ گراؤنڈ پنہنچی تو سعید پچ کی طرف چہل قدمی کرنے گۓ- جب انہوں نے دیکھا کہ پچ اتنی ہی سبز ہے جتنی ایک دن پہلے تھی، تو انہوں نے انتخاب سے کہا کہ وہ ٹھیک محسوس نہیں کر رہے اور پریکٹس کے دوران انکی پیٹھ میں موچ آگئی ہے-
سعید ٹیم سے فارغ ہو گۓ- لیکن جلد ہی کسی نے یہ دیکھا کہ سعید جو کہ کمر کی موچ میں مبتلا تھے، سڈنی کے نائٹ کلب میں رقص کرتے ہوے، زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں-
ٹیم کے کپتان اور مینیجر نے تحقیق کی اور یہ پتا چلا کہ سعید نے اپنی چوٹ کے بارے میں جھوٹ کہا تھا- تادیبی بنیادوں پر انھیں واپس پاکستان بھیج دیا گیا-
سعید پاکستان واپس آگۓ اور دوبارہ انگلینڈ منتقل ہو گۓ، لیکن انہوں نے پھر پاکستان کے لئے نہیں کھیلا-
1998 میں، پچیس سال بعد وہ اچانک شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں ظاہر ہوۓ جہاں پاکستان ایک او ڈی آئی (ODI) ٹورنامنٹ کھیل رہا تھا-
سابقہ انگلش کپتان اور مشہور کمنٹیٹر، ٹونی گریگ نے انہیں پاکستانی ڈریسنگ روم کے باہر گھومتے ہوے دیکھا- سعید بلکل بدل گۓ تھے-
گریگ کو ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے خدا کو دوبارہ پایا ہے اور 1980 کی دہائی کے آخر میں تبلیغی تنظیم، تبلیغی جماعت، میں شامل ہو گۓ ہیں اور وہ یہاں کچھ پاکستانی کھلاڑیوں کی دعوت پر آۓ ہیں جو جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں-
یہ مانا جاتا ہے کہ سعید نے پاکستانی ٹیم کے پہلے گروپ کو جماعت میں شامل کرنے میں اھم کردار ادا کیا ہے-
سعید ابھی بھی جماعت سے وابستہ ہیں اور یو کے میں خاموش زندگی گزار رہے ہیں-
ندیم ایف پراچہ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار