• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

’ بھارت نے اسرائیل کی مدد سے خطرناک حملے کا منصوبہ بنایا‘

شائع March 5, 2019
بر وقت خفیہ معلومات اور پس پشت پیغام رسائی سے بھارت کو واضح کردیا گیا کہ حملے کا کرارا جواب دیا جائے گا۔ — فائل فوٹو/اے پی
بر وقت خفیہ معلومات اور پس پشت پیغام رسائی سے بھارت کو واضح کردیا گیا کہ حملے کا کرارا جواب دیا جائے گا۔ — فائل فوٹو/اے پی

اسلام آباد: اعلیٰ سطح کے حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا کہ بھارت نے پاکستان سے کشیدگی میں اضافے کے پیش نظر اسرائیل کی مدد سے اپنے راجستھان ایئربیس سے گزشتہ ہفتے ’خطرناک حملے‘ کا منصوبہ بنایا تھا۔

بر وقت خفیہ معلومات اور پس پشت پیغام رسائی (بیک ڈور میسجنگ) سے بھارت کو واضح کردیا گیا کہ اگر وہ حملہ کرے گا تو اسے کرارا جواب دیا جائے گا اور وہ جواب ایسا ہوگا جس سے دونوں ممالک کے پاس ’واپسی کا راستہ نہیں ہوگا‘۔

جوہری اور مسلح پڑوسی ممالک کے درمیان مشکل ترین ہفتہ گزرا جس کے دوران ممکنہ طور پر کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی قریب ترین صورتحال تھی اور کسی کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ آگے کیا ہوگا۔

مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی میں اسرائیل کا بھی ہاتھ ہے

تاہم اعلیٰ سرکاری ذرائع کا ماننا ہے کہ بھارت کی جانب سے دوبارہ کشیدگی میں اضافہ کرنے کی کوشش، زمینی، فضائی یا میزائل سے نہیں بلکہ دہشت گردوں کے حملے اور اقتصادی اقدامات سے کی جاسکتی ہے۔

بلکہ در حقیقت بھارت کا گزشتہ ہفتے کیا گیا پہلا جذباتی حملہ 1971 کے بعد پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی میں اپنی نوعیت کا انوکھا تھا۔

اس کے بعد پاکستان کی جانب سے 2 بھارتی طیارے گرائے گئے جس سے ایک بھارتی پائلٹ ہلاک اور ایک کو گرفتار کرلیا گیا جسے بعد ازاں جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کردیا گیا تھا۔

اس وقت سے لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلسل فائرنگ کا تبادلہ جاری تھا تاہم گزشتہ 24 گھنٹوں کے درمیان ہی اس میں کچھ کمی واقع ہوئی۔

فوج کے چیف ترجمان سے اسے کشیدگی میں کمی سمجھے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ ہفتے ہونے والی فائرنگ کے تبادلے کے مقابلے میں سیز فائر وائلیشنز (سی ایف ویز) (سیز فائر کی خلاف ورزی) میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاک۔ بھارت کشیدگی: 'دہلی کی طرف سے مثبت اقدامات کے منتظر ہیں'

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پیش آنے والی بظاہر کمی کی بنیاد پر ہم اپنی نگرانی اور تیاری کی سطح میں کمی نہیں لاسکتے، ہمیں کسی بھی مہم جوئی کے لیے تیار رہنا ہوگا‘۔

دوسری جانب حکومت کے اعلیٰ عہدے پر تعینات ذرائع کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں فخر محسوس کیا جارہا ہے جبکہ عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن کی بھی بات کی جارہی ہے کیونکہ نریندر مودی کی جنگ کی سیاست سے تمام شعبوں میں رکاوٹوں کا سامنا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب بھارتی وزیر اعظم مئی میں ہونے والے انتخابات کے لیے جنگ کا ڈھول بجارے ہیں اور دوسری جانب انہیں اپنے متنازع فیصلوں پر مسائل کا سامنا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ بھارت نے اسرائیل کی مدد سے راجستھان کے ایئربیس سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا جو پاکستان کے ساتھ عالمی سرحد سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بروقت خفیہ معلومات اور بیک ڈور میسنجنگ کی وجہ سے اسے بتایا گیا کہ بھارت اگر آگے بڑھا تو اسے بھرپور جواب دیا جائے گا اور دونوں ممالک ایسے نہج پر پہنچ جائیں گے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔

مزید پڑھیں: ایل او سی پر بھارت کی بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، آئی ایس پی آر

ذرائع نے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو دنیا کی بہترین خفیہ ادارہ قرار دیا اور کہا کہ زیادہ تر امکانات یہ ہیں کہ بھارت دہشت گردانہ حملے اور معاشی اقدامات وغیرہ کے ذریعے پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔

ایک روز قبل اس ہی طرح کا بیان فوجی ذرائع نے بھی دیا تھا۔

پلوامہ کی وجہ سے سفارتی و سیاسی کشیدگی سامنے آئی جس کے حوالے سے دیکھا گیا کہ بھارت نے نئی خطرناک مثال قائم کی ہے جس کے طویل المدتی اثرات ہوسکتے ہیں۔

نئی دہلی اس سطح پر نہیں کہ وہ ایک اور آغاز کو برداشت کر سکے کیونکہ انتخابات بھی سر پر ہیں اور پاکستان مسلسل مزاحمت اور نظر اندازی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

یہ دو دھاری تلوار سر پر لٹک رہی ہے کیونکہ اب معاملہ بھارت کی عدالت میں ہے اور دنیا کی اس پر نظر ہے۔

پاکستان کی عوامی و فوجی قیادت نے افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت بین الاقوامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑے ہوکر اور اہم اقتصادی ترقی میں آگے بڑھتے ہوئے ذرائع نے اعتراف کیا کہ کالعدم تنظیمیں پاکستان کے لیے مسائل میں اضافہ کر رہی ہیں جبکہ ماضی میں ان تنظیموں کے خلاف دیے گئے بیانات دباؤ میں تھے۔

اس موقع پر موجود وزیر خزانہ اسد عمر نے انکشاف کیا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کام کا آغاز پلوامہ حملے سے قبل ہی ہوگیا تھا۔

قومی سلامتی کمیٹی کے دوسرے اجلاس میں ان اداروں کے خلاف کام میں تیزی کا معاملہ اٹھایا گیا تھا اور ان کی وزارت نے اسلحہ کے خاتمے کے بعد ان عناصر کے لیے مالیاتی رکاوٹ کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی اور بولی وڈ کے دو روپ

قبل ازیں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا تھا کہ پاکستان 2014 میں ان تنظیموں کے خاتمے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ ان کے پاس آج کوئی آپشن نہیں اور صرف کشمیر امور کو یہ دہشت گردی میں تبدیل کر رہے ہیں۔

این ایس سی کے اجلاس میں یہ متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ عوامی و فوجی قیادت کا رد عمل نہ دیا جانا اب سوال نہیں، ایک غیر جذباتی، عقلی فیصلہ کیا جانا ہے اور اس کے لیے ملک کی قیادت ایک پیج پر ہے۔

پاکستان نے پہلے ہی پلوامہ حملے پر تحقیقات کرنے کی پیشکش کی ہے دہشت گردی پر بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

حکومتی ذرائع نے محسوس کیا کہ پلوامہ ڈوزیئر پاکستان پر حملہ کیے جانے کے 2 روز بعد دیا جانا بھارت کی نیت ظاہر کرتا ہے، ڈوزیئر میں قابل کارروائی شواہد کی کمی ہے تاہم اس پر دفتر خارجہ اور آئی ایس آئی کی جانب سے نظر ثانی کی جارہی ہے۔

خدشات

اہم سفارتی عمل کے ہوتے ہوئے فوجی ترجمان نے 2 باتوں پر واضح موقف اپنایا جس میں بھارت اگر یہاں سے کشیدگی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو یہ بات صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان نہیں بلکہ اس کے اثرات پورے خطے پر آئیں گے، دوسری بات یہ کہ بھارت پاکستان کی سالمیت یا اس کی خودمختاری کے بدلے کسی کو بچانے کی کوشش نہیں کرسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-بھارت کشیدگی: لائن آف کنٹرول پر پاک فوج ہائی الرٹ

ان کا کہنا تھا کہ بھارت جذباتی طور پر باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں تاہم اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ اس سے باہر نکلنے کا راستہ کیا ہوگا اور انہیں اس سے پیچھے ہٹنے کے بارے میں جاننا چاہیے، بھارت مزید مہم جوئی کو برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ یہ بہت خطرناک اور سنگین ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کو نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا مطلب معلوم ہے؟ پاکستان ہمیشہ جنگ پر مذاکرات اور امن کو ترجیح دے گا تاہم اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے قربانیاں دینے سے بھی نہیں ڈرے گا اور اسی وجہ سے پاکستان ہائی الرٹ پر ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 5 مارچ 2019 کو شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024