آئی سی سی، بھارتی ٹیم کے فوجی ٹوپیاں پہن کر کھیلنے کا نوٹس لے، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی کرکٹ ٹیم کی جانب سے آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچ میں فوجی ٹوپیاں پہننے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا نے دیکھا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم نے فوجی ٹوپیاں پہنیں، آئی سی سی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے۔
خیال رہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم نے گزشتہ روز ایک جینٹل مین کھیل کو بھی سیاست کی نظر کردیا تھا اور آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ایک روزہ میچ میں پوری بھارتی ٹیم نے فوجی ٹوپیاں پہنیں تھیں۔
اس معاملے پر بھارتی کرکٹ ٹیم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اس میچ میں پاکستانی نژاد آسٹریلوی کھلاڑی عثمان خواجہ کی سنچری کی بدولت بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مزید پڑھیں: بھارتی ٹیم کی فوجی کیپ: 'یہ کرکٹ نہیں، آئی سی سی کارروائی کرے'
سکھر میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کشمیر آپ کھو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ، میر واعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی، یاسین ملک، پوری حریت قیادت اور بھارتی اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ بھارت کی کشمیر کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے، اسے ازسرنو دیکھا جائے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ 1948 سے زیر بحث ہے، اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق رپورٹ سب کے سامنے ہے جبکہ بھارت کو کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینا ہوگا۔
کشمیر کے معاملے پر ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکا نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر ایک خطرناک جگہ ہے اور امریکی شہری وہاں نہیں جائیں۔
کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو، شہباز شریف اور نمایاں پارلیمانی رہنماؤں کو دعوت دے رہا ہوں کہ آئیں بیٹھتے ہیں، جس پر اتفاق کیا گیا تھا اس پر اپنی آرا دیں ہم اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس اجلاس میں عمران خان کے ساتھ شریک تھا، جس کی صدارت اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کر رہے تھے، اس اجلاس میں آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے تھے اور اس اجلاس میں متفقہ طور پر نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی ٹوپی پہننے والی بھارتی ٹیم کو آسٹریلیا کے ہاتھوں 32 رنز سے شکست
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ نیشنل ایکشن پلان 2014 کا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اتفاق کے باوجود اس پر عمل کرنے کی ضرورت کسی میں نہیں تھی لیکن موجودہ حکومت نے ہمت کی ہے اور پاکستان کے اندرونی و بیرونی مفادات کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور ہم نے دنیا کو امن کا پیغام دیا، جس پر آج پاکستان کی تعریف ہورہی ہے جبکہ دنیا بھارت سے پلوامہ واقعے کا ثبوت مانگ رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سیاسی مجبوری کو سمجھنا ہوتا ہے، مودی کا لب و لہجہ الیکشن تک ایسا ہی رہے گا لیکن تاہم ہم امن چاہتے ہیں لیکن اگر جارحیت کی گئی تو منہ توڑ جواب دیں گے۔
خیال رہے کہ 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 44 بھارتی پیراملٹری اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے بعد بھارت نے بنا کسی ثبوت اور تحقیق کے پاکستان پر الزام تراشی شروع کردی تھی جبکہ پاکستان نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات میں تعاون کی پیش کش کی تھی۔
تاہم اس کے باوجود بھارت کی جانب سے پاکستان کو دھمکیاں دینا کا سلسہ جاری رہا تھا اور 26 فروری کو بھارتی فضائیہ نے پاکستانی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی تاہم پاک فضائیہ کی بروقت کارروائی پر بھارتی طیارے بالاکوٹ کے مقام پر اپنے پے لوڈ گرا کر چلے گئے تھے۔
اس واقعے کے اگلے روز 27 فروری کو بھارتی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی کوشش کی تھی، جس پر پاک فضائیہ نے 2 بھارتی طیاروں کو مارگرایا تھا جبکہ ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرلیا تھا، جسے بعد ازاں پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کردیا تھا۔