• KHI: Zuhr 12:33pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:03pm Asr 4:39pm
  • ISB: Zuhr 12:09pm Asr 4:45pm
  • KHI: Zuhr 12:33pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:03pm Asr 4:39pm
  • ISB: Zuhr 12:09pm Asr 4:45pm

پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار - 6

شائع July 19, 2013

یہ اس فیچر کا چھٹا  حصہ ہےپہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا اور پانچواں حصہ پڑھنے کے لئے کلک کریں-


عمران خان
عمران خان

عمران خان :

عمران خان کا تعلق، کرکٹ سے وابستہ خاندان سے تھا- انہوں نے تعلیم لاہور کے ایچیسن اسکول سے حاصل کی اور بعد میں ماسٹر ڈگری کے حصول کر لئے آکسفورڈ چلے گۓ-

انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ 1971 میں انیس سال کی عمر میں کھیلا، جس میں کوئی خاص قابل ذکر کارنامہ انجام نہ دیا اور بڑی جلدی ہی بھلا دے گۓ- لیکن پھر 1974 میں واپس ٹیم میں بلاۓ گئے- کپتان مشتاق کی نگرانی اور اپنے ساتھی فاسٹ بولر، سرفراز نواز کی سرپرستی میں عمران ایک اچھے فاسٹ بولر کی حیثیت سے ابھرے-

ان کے شہرت کے لمحات 1976 میں آسٹریلیا میں کھیلے گۓ پاکستان کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں سامنے آۓ- 3 ٹیسٹ سیریز میں پاکستان 1 میچ ہار چکا تھا لیکن خان نے اپنی تیز بولنگ سے 12 وکٹ لے کر پاکستان کو تاریخی فتح سے ہمکنار کیا-

انتخاب عالم ملکہ برطانیہ سے عمران کا تعارف کروا رہے ہیں
انتخاب عالم ملکہ برطانیہ سے عمران کا تعارف کروا رہے ہیں

اسی ٹیسٹ کے دوران خان نے پہلی بار اپنے حصّے کے تنازعہ کا مزہ چکھا-

آسٹریلین پلیئر، خصوصاً فاسٹ بولر ڈینس لیلی اور وکٹ کیپر روڈ مارش، پورے دورے میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ سلیجنگ کرتے رہے تھے-

پاکستانی کپتان مشتاق نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے فاسٹ بولر عمران اور سرفراز کوآزادی دے کر میچ کا نقشہ بدل دیا جاۓ کہ وہ آسٹریلین آخری بیٹس مینوں پر باؤنسر بولنگ کریں- امپائر کے کی بار بار تنبیہ کے باوجود، خان خاص طور سے مارش اور لیلی پر بار بار باؤنسر پھینک رہے تھے-

Imran in England 198x300

ادھر جب کہ سرفراز اپنی مخصوص پنجابی میں مسلسل بیٹس مین کو گالی گلوچ کر رہے تھے- خان شارٹ بال کراتے ہوئے دوڑتے ہوے بیٹس مین کی طرف جاتے اور اسے کینہ پرور نظروں سے دیکھتے، اور جب بھی خان ایسا کرتے، 19 سالہ میانداد جو وکٹ کے انتہائی پاس کھڑے ہوتے تھے، لیلی اور مارش سے بار بار یہی دہراتے رہے کہ یہ تو تمھیں مار ہی دے گا، پکا پکا مار دے گا-

آخر کار امپائر نے کھیل روک دیا- خان کے باؤنسر نے لیلی کو لمبا لیٹ کر دیا- مشتاق نے مداخلت کی اور امپائر سے پوچھا کہ جب لیلی پاکستان کے آخری بیٹس مینوں کو باؤنسر کرا رہا تھا تب امپائر نے کیوں نہیں روکا-

خیر یہ معاملہ اس وقت رفع دفع ہوا جب مشتاق نے با آواز بلند خان کو باؤنسر مارنے سے منع کیا- بہرحال، جب عمران خان بولنگ مارک پر پنھنچے تو مشتاق نے انہیں کہا کہ حرامزادے کی آنکھوں کے درمیان کا نشانہ لو-

مشتاق محمد
مشتاق محمد

دلچسپ بات یہ ہے کہ خان کی کارکردگی اور اسکی خوبصورتی نے اسے پہلے آسٹریلیا اور پھر اپنی ملک میں مشہور کر دیا-

لیکن جب وہ پاکستان ٹیم میں 1978 میں واپس آئے ( آسٹریلیا میں کیری پیکر لیگ جوائن کرنے پر ان پر پابندی لگ گئی تھی)، تو پاکستان میں ان کی شہرت کرکٹ اسٹار کے علاوہ اور وجوہات کی بنا پر بھی ابھرنے لگی-

اخبارات یو کے میں ان کے مختلف معاشقوں کی رپورٹ دینے لگے، کہ وہ کس طرح ایک نائٹ کلب مگنٹ بن گئے ہیں جو ان تمام شہروں کے نائٹ کلبوں میں جاتے ہیں جہاں جہاں پاکستان کا دورہ ہوتا ہے- اور جب وہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ پاک انڈیا سیریز کے لئے انڈیا پنہچے تو انڈین میگزینز میں پہلی بار ان کے لئے لفظ 'پلے بواۓ' کا استعمال کیا گیا-

اپنی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے
اپنی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے

خان نے اپنی ستائسویں سالگرہ، بنگلور کے ڈریسنگ روم میں اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ منائی- لیکن کچھ انڈین میگزینز کے مطابق وہ شام میں انڈین اداکارہ زینت امان کے ساتھ دیکھے گئے-

جب دوسرے ٹیسٹ میں عمران خان، کمر کی موچ کی وجہ سے 2 اوور سے زیادہ نہ بال نہ کرا سکے تو قدامت پسند اردو اخبارات نے زینت امان والا معاملہ اٹھایا- انہوں نے ان پر ٹیم کو غیر اخلاقی سر گرمیوں میں ملوث کرانے اور کلبوں اور انڈین اداکاراؤں کے ساتھ راتیں گزارنے پر طعن تشنہ کیا-

سچ تو یہ ہے کہ ٹیم نے 1976-77 کے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا دورے میں زیادہ عیاشیاں کی تھیں، فرق بس اتنا تھا کہ وہ اس بار پہلے جیسی کار کردگی نہیں دکھا رہے تھے-

زینت امان
زینت امان

پاکستنان  2-0 سے سیریز ہار گیا، اور ایک اردو اخبار نے تو یہ تک کہا کہ خان کی کمر درد کی ذمہ دار زینت امان ہے-

کئی سال بعد جب ایک انڈین مصنفہ شوبھا دے نے زینت امان سے عمران خان اور اس کے حوالے سے سوال کیا تو زینت امان نے یہ جواب دیا کہ ان کے درمیان ایسی کوئی سنجیدہ بات نہیں تھی اور یہ کہ عمران خان مغرور، بد اخلاق اور اپنے مداحوں کے ساتھ بہت ناشائستہ تھے-

بہرحال انڈیا کے بہترین ماہانہ میگزین، انڈیا ٹوڈے نے 1984 میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ دونوں کے درمیان معاملہ سنگین تھا اور یہ کہ دونوں شادی کے قریب پنہنچ گۓ تھے- برٹش خواتین کے ساتھ عمران کے معاشقوں کی کہانیاں چلتی رہیں، لیکن جب انہوں نے اپنا پلے بواۓ کا تصور ختم کیا، تو انہیں ایک اور تنازعہ نے گھیر لیا-

عمران، عبدلقادر اور مدثر نذر
عمران، مدثر، عبدلقادر اور صادق محمد

سنہ 1979 کی ہار کے بعد آصف اقبال نے کپتانی اور کھیل سے ریٹائرمنٹ لے لی- ان کی جگہ 23 سالہ میانداد کو کپتان بنایا گیا- لیکن 1982 میں ماجد خان کی سربراہی میں 10 کھلاڑیوں بشمول عمران خان، نے میانداد کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کر دیا-

اس کا فیصلہ یہ ہوا کہ عمران خاں کو کپتان بنا دیا جاۓ- اور وہ پاکستان کے سب سے مشہور اور کامیاب کپتان بن گۓ- ظاہر ہے خان اور میانداد کے درمیان مختصر عرصے کے لئے تناؤ رہا لیکن جلد ہی دونوں نے معاملہ ختم کر دیا-

ماجد خان
ماجد خان

حیرت کی بات یہ ہے کہ خان کا اپنے کزن، سرپرست اور میانداد مخالف تحریک کے سربراہ ماجد خان سے سب سے بڑا اختلاف ہوا-

1982 میں انگلینڈ کے دورے کے دوران عمران نے یہ فیصلہ کیا کہ ماجد خان کو پہلے ٹیسٹ سے ہٹا کر نوجوان منصور اختر کو ان کی جگہ کھلایا جاۓ-

خوش باش، اسٹائلش اور 1970 کے اوائل سے ٹیم کی بیٹنگ لائن اپ کا ایک کارآمد، مرکزی اثاثہ، ماجد خان یہ دیکھ کر خفا ہو گئے- یہ حقیقت جانتے ہوے بھی کہ وہ اپنا اسٹائل کھو چکے تھے- اس بات کا اقرار عمران خان نے بھی کیا ہے کہ اس واقعہ کو 30 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ماجد خان نے اب تک عمران سے ٹھیک طور پر بات نہیں کی ہے-

1982-83 میں آسٹریلیا اور انڈیا دونوں کو 3-0 سے ہرانے کا بعد، خان کی پنڈلی میں شدید دباؤ کے سبب فریکچر ہو گیا اور وہ کچھ عرصے کے لئے کھیل سے کنارہ کش ہو گئے- انہوں نے انڈیا کے خلاف 6 ٹیسٹوں میں 40 وکٹیں لیں اور اپنی بولنگ کی انتہا پر ڈھیر ہو گئے- ان کی مختصر غیر حاضری میں پاکستانی ٹیم، اندرونی لڑائیوں اور بدنظمی کا شکار ہو گئی- خان 1985 میں واپس آۓ اور کچھ عرصہ میانداد کی قیادت میں کھیلنے کے بعد دوبارہ کپتان بنا دئے گۓ اور میانداد ان کے نائب بن گئے- 1986 میں ایک بار پھر تنازعات شروع ہو گۓ-

قاسم عمر نے، جو اپنے آپ کو آسٹریلیا کے 1986-87 کے دورے میں ایک شاندار اور جوان بیٹس مین کی حیثیت سے منوا چکے تھے، دورے سے واپسی کے فوراً بعد، پریس کانفرنس کر ڈالی- پہلی کانفرنس میں انہوں نے خان پر حسد کرنے کا الزام لگایا-

قاسم عمر
قاسم عمر

قاسم کا دعویٰ تھا کہ میچ میں 50 رنز بنانے کے بعد میں نے شائقین کی تالیوں کا جواب دینے کے لئے بیٹ ہوا میں اٹھایا اور بجاۓ اس کے کہ کپتان میری تعریف کرتا، اس نے مجھے آؤٹ ہو جانے پر برا بھلا کہا اور مستقل میری بے عزتی کرتا رہا-

جب خان نے اس الزام کی تردید کی تو جواب میں قاسم نے کپتان اور اس کے ساتھیوں پر حشیش استعمال کرنے کا الزام لگایا اور یہ کہ وہ منشیات اپنے استعمال کے لئے بیٹنگ گلووز میں چھپا کر شہر بشہر لے جاتے ہیں-

قاسم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ آسٹریلیا دورے میں کھلاڑیوں کو اپنے ہوٹل روم میں طوائفیں لانے کی بھی اجازت تھی-

یہ خان اور اس کی ٹیم کی خوش قسمتی ہی تھی کہ وہ اچھی کار کدردگی دکھا رہے تھے- جسکی وجہ سے قاسم اور تلخ ہو گیا، حد یہ کہ ایک سپورٹ صحافی نے قاسم کو 'غیر متوازن' تک کہہ دیا- قاسم پر قومی ٹیم اور اس کے کپتان پر بے بنیاد الزامات لگانے کے جرم میں پابندی عائد ہو گئی- 1990 کے اوائل میں، قاسم نے اسلامی تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی-

حالانکہ خان اور ان کی ٹیم کامیاب نتائج مہیا کر رہے تھے لیکن منشیات کے تنازعہ نے 1987 میں پاک انڈیا سیریز میں پاکستان کی فتح کے بعد ایک بار پھر سر اٹھایا-

انڈیا کی سپین بولنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے عمران خان نے ایک سابقہ بائیں ہاتھ کے کھلاڑی یونس احمد کو دوبارہ ٹیم میں لانے کا فیصلہ کیا-

انڈیا کے دورے پر نواز شریف کے ساتھ ایک فنکشن میں
انڈیا کے دورے پر نواز شریف کے ساتھ ایک فنکشن میں

یونس نے 1969-70 میں پاکستان کے لئے کچھ ٹیسٹ کھیلے تھے- لیکن ایک انگلش کلب کے ساتھ ساؤتھ افریقہ کے دورے پر جانے کی وجہ سے پاکستانی گورنمنٹ نے ان پر پابندی لگا دی تھی- ساؤتھ افریقہ پر اس زمانے میں ایک نسل پرست حکومت قائم تھی-

یونس ایک انتہائی قابل بیٹس مین تھے اور وہ انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلتا رہا تھے- وہ 40 سال کے تھے جب عمران خان نے انہیں دوبارہ ٹیم میں شامل کیا-

بہرحال 1987 میں انگلینڈ کے دورے سے کچھ پہلے یونس نے ایک بیان جاری کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان ٹیم پر برے اثرات مرتب کر رہے ہیں اور یہ کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کی منشیات استعمال کرنے اور عورت بازی میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں-

حالانکہ یونس کے الزامات سن کر کچھ اخبارات نے یہ مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی چھان بین کی جاۓ، لیکن عمران خان اور ان کی ٹیم، اس وقت انڈیا کو اس کے ملک میں ہی شکست دینے کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر تھی-

عمران اور میانداد، دو دوست، دو عظیم کھلاڑی
عمران اور میانداد، دو دوست، دو عظیم کھلاڑی

لیکن یونس نہیں پسیجے- ایک مشہور کرکٹ میگزین 'پاکستان کرکٹر' کو انٹرویو کے دوران یونس نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک پارٹی میں عمران خان کو منشیات کے کش لیتے ہوے دیکھا- یونس نے کہا کہ "جب میں نے عمران کے ہاتھ میں سگریٹ دیکھا تو اس پوچھا کہ کیا اس نے سگریٹ نوشی شروع کردی ہے- وہ مسکرایا اور مجھے بتایا کہ یہ کوئی عام سگریٹ نہیں ہے- تو میں نے اس سے پوچھا، کیا مطلب اسکا- اس نے سگریٹ کا لمبا کش لگایا اور میرے ہاتھ میں یہ کہ کر تھما دی کہ'ٹرائی کرو'- جلد ہی مجھے پتا چل گیا کہ وہ حشیش تھی-

عمران دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ
عمران دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ

خان نے ایک بار پھر ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا یہ کہتے ہوے کہ یونس صرف اس لئے ناراض ہیں کیوں کہ عمران نے انہیں انگلینڈ دورے کے لئے منتخب نہیں کیا-

(* 1993 میں وسیم اکرم کی قیادت میں، ویسٹ انڈیز کے دورے پر گریناڈا بیچ سے چھ کھلاڑیوں کو گانجے کا نشہ کرتے ہوے گرفتار کیا گیا تھا )

دورہ انگلینڈ میں وسیم اکرم کو مشورہ دیتے ہوئے
دورہ انگلینڈ میں وسیم اکرم کو مشورہ دیتے ہوئے

گو کہ عمران خان کے منشیات اور جنسی آوارگی کے قصے وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے لیکن انہوں نے 1992 میں آسٹریلیا میں جیتے جانے والے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کی-

انہیں آج بھی ملک کے اعلیٰ ترین کرکٹر اور بہترین کپتان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے-

انہوں نے نا صرف ٹیم میں اتحاد اور نئی روح پھونکی جو مشتاق محمد کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے ٹیم میں ختم ہو گئی تھی بلکہ تیز بولروں ( وقار، وسیم، عاقب) اور جوان بیٹس مین ( انضمام، رمیز، سلیم ملک، اعجاز احمد) اور چالاک اسپنر (عبدل قادر، مشتاق احمد) کی تربیت کی اور انہیں میچ فاتحین میں تبدیل کر دیا-

ایک کامیاب ٹیم بنانے اور اس کو چلانے میں ان کے نائب جاوید میانداد کا بڑا ہاتھ ہے-

پاکستانی ٹیم کے لئے یہ دونوں سب سے اھم کھلاڑی بن گۓ-

ورلڈ کپ بانوے کے دوران میانداد کے ساتھ
ورلڈ کپ بانوے کے دوران میانداد کے ساتھ

مشہور پاکستانی کمنٹیٹر، چشتی مجاہد نے ایک بار کہا تھا کہ یہ دونوں (میانداد اور عمران خان) مل کر کرکٹنگ حکمت عملی اور صلاحیتوں کا سر چشمہ ہیں-

حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں رمیز راجہ اور وسیم اکرم نے اپنے کھیل کے دنوں پر بات کرتے ہوے کہا کہ عمران ایک سخت کپتان تھے لیکن بہت خیال رکھنے والے-

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور میانداد نے انتہائی مشکل معیار وضح کر رکھے تھے- وہ کھیل کے ساتھ مکمل وابستگی سے کم پر، کسی طور نہیں مانتے تھے- لیکن انہوں نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ کرکٹ کھیلنا اور دوروں پر جانا لڑکوں کے لئے تفریح کا باعث ہو-


 ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں

ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (1) بند ہیں

شانزے Jul 20, 2013 01:55pm
بلا شبہ عمران دنیائے کرکٹ کے چند عظیم کھلاڑیوں میں سے ایک ھیں آسٹریلیا میں اپنے قیام کے دوران مجھ سے کئی گوروں نے بڑی فکرمندی سے عمران کے کرین سے گرنے کے بعد ان کی صحت کا پوچھا. وھ یہاں میرے اندازوں سے کہیں زیادھ پاپولر نکلے

کارٹون

کارٹون : 12 اپریل 2025
کارٹون : 11 اپریل 2025