• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

آئی ایم ایف معاہدے کو حتمی شکل دینے تک منظر عام پر نہیں لاسکتے، مشیر خزانہ

شائع May 25, 2019 اپ ڈیٹ June 10, 2019
حکومت نے گردشی قرضوں میں ماہانہ 12 ارب روپے کی کمی کی ہے، مشیر خزانہ—اسکرین شاٹ/ ڈان نیوز
حکومت نے گردشی قرضوں میں ماہانہ 12 ارب روپے کی کمی کی ہے، مشیر خزانہ—اسکرین شاٹ/ ڈان نیوز

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہےکہ عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) سے معاہدے کو حتمی شکل دینے تک اس کی شرائط کو منظر عام پر نہیں لا سکتے۔

اسلام آباد میں وفاقی وزراء اور مشیروں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے اچھے معاشی فیصلے کرکے ملک کے گردشی قرضوں میں ماہانہ 12 ارب روپے تک کی کمی کی ہے۔

عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ آئندہ چند ماہ میں معیشت کی بہتری کےلیے مزید اچھے فیصلے کیے جائیں گے اور آئندہ 6 سے 12 ماہ میں حالات مزید بہتر ہوں گے۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ حالیہ حکومت سے قبل گردشی قرضوں میں ماہانہ 36 ارب روپے کا اضافہ ہو رہا تھا لیکن وزیر اعظم عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے ان میں ماہانہ 12 ارب روپے کی کمی لائی گئی ہے۔

مشیر خزانہ نے بتایا کہ اس وقت گردشی قرضوں میں ماہانہ 26 ارب روپے کا اضافہ ہو رہا ہے اور آئندہ کچھ ماہ میں اسے کم کرکے ماہانہ 8 ارب روپے تک لایا جائے گا اور پھر 2020 کے آخر تک اسے صفر پر لایا جائے گا۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے پر بھاری سود ادا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج مئی تک ملنے کا امکان

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایف ایف سے قرض لینے پر شرح سود نسبتاً کم ہوتی ہے جب کہ عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کے بعد ملک میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

مشیر خزانہ کے مطابق بجٹ آنے کے چند ماہ بعد معیشت کو مضبوط اور بہتر بنانے کے لیے اچھے فیصلے کیے جائیں گے اور غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کیا جائے گا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ملک کی ٹیکس آمدن صرف 11 فیصد ہے اور ملک میں فقط 20 لاکھ لوگ ٹیکس بھرتے ہیں جن میں سے 6 لاکھ وہ تنخواہ دار افراد ہیں جن کا ٹیکس خود ہی کاٹ لیا جاتے ہے جبکہ ٹیکس کا 85 فیصد حصہ صرف 350 کمپنیاں دیتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں ان پر اضافی بوجھ نہیں ڈالا جائے اور جو نہیں بھر رہے ہیں یا آمدن کے حساب سے کم دے رہے ہیں ان پر اضافی بوجھ ڈالا جائے اور اس فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت نے نئے ڈیٹا حاصل کیے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ ' ملک میں 3 لاکھ 41 ہزار بجلی اور گیس کے صنعتی کنیکشن ہیں جن میں سے صرف 40 ہزار ہی سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں جس کا مطلب ہے کہ 3 لاکھ ٹیکسس ادا نہیں کر رہے'۔

مشیر خزانہ کے مطابق ملک میں 5 کروڑ بینک اکاؤنٹ ہیں اور جب ایک بینک میں دیکھا گیا تو وہاں 40 لاکھ اکاؤنٹ تھے اور ان میں سے صرف 4 لاکھ بینک اکاؤنٹ ہولڈرز ٹیکس دیتے ہیں جو مجموعی کا 10 فیصد بنتا ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض کا معاہدہ طے پاگیا، مشیر خزانہ

ان کا کہنا تھا کہ 28 ملکوں سے 1 لاکھ 52 ہزار پاکستانیوں کے ریئل اسٹیٹ اور ان کے بینک اکاؤنٹ پر نیا ڈیٹا حاصل کیا گیا اور اس کے مطابق 1 لاکھ کمپنیاں ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہیں مگر ان میں سے آدھی ہی ٹیکس ادا کرتی ہیں۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کی 2 وجوہات ہیں ایک ایکسچینج ریٹ اور دوسرا عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کا بڑھنا ہے،

تیل قیمتوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے، 2014 میں تیل کی قیمت 24 ڈالر فی بیرل تھی اور عالمی مارکیٹ میں فی الوقت تیل کی فی بیرل قیمت 79 ڈالر ہو چکی ہے اور ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اس کی قیمت پر حکومت کا اختیار نہیں۔

تیل کی قیمتوں سے بجلی کی قیمت پڑنے والے اثرات میں ہم نے کوشش کی ہے کہ جو غریب اور ہمارے صارفین کا 75 فیصد حصہ ہیں، جو 300 یونٹ سے کم استعمال کرتے ہیں ان پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے اور اسے کے لیے ہم نے بجٹ میں 216 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے روزگار بڑھانے کے لیے پچاس لاکھ گھروں کے منصوبے کا آغاز کیا اور اس سے 28 سیکٹر میں روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کو کم شرح سود پر قرضے ملیں گے۔

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سال میں زراعت سیکٹر کی صورتحال مزید ابتر ہوئی ہے، ہم زراعت کے شعبے کے ترقی کے لیے 250 ارب روپے مختص کررہے ہیں تاکہ اس سے روزگار بھی میسر ہو۔

عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہم ٹریڈنگ کے بجائے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ ٹریڈنگ کے مقابلے میں مینوفیکچرنگ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ کے مطابق حکومت کو روزگار پیدا کرنے کا ذمہ دار سمجھنے کے بجائے نجی سیکٹر کو اس جانب پابند کریں گے کہ وہ زیادہ سے زیادہ روزگار دیں اور حکومت نجی سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے لیے ایسی کمپنیوں کو مختلف ٹیکس میں چھوٹ دے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو قرض کی مد میں چین سے 2.2 ارب ڈالر موصول

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بہت ساری ایسی شاہراہیں اور سڑکیں ہیں جن کی تعمیر کے لیے نجی سیکٹر سے مدد لیں گے، حکومت سڑکوں پر سرمایہ خرچ کرنے کے بجائے اہم کاموں پر خرچ کرے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مشکل دن ختم ہونے جارہے ہیں، معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، یہ وقت اختلافات کا نہیں ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق کچھ بتایا نہیں جارہا اور پھر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شرائط بہت سخت ہیں، اگر بتایا نہیں جارہا تو پھر انہیں یہ کیسے پتہ چل گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام سخت ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ آئی ایم ایف سے پروگرام مکمل ہونے تک اس کو منظر عام پر نہیں لایا جاسکتا۔

اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم

مشیر خزانہ نے وفاقی کابینہ سے منظور شدہ اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے اسے انتہائی آسان بنایا ہے، کوئی بھی پاکستانی اس اسکیم سے فائدہ اٹھاسکتا ہے اور اس کی قیمت صرف 4 فیصد ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ نقدی دکھانا چاہ رہے ہیں تو آپ کو اسے بینک میں دکھانا ہوگا اور اگر یہ ریئل اسٹیٹ میں ہے تو اس کی مجموعی لاگت کا ٹیکس صرف 1.5 فیصد ادا کرکے اسے جائز بناسکتے ہیں'۔

انہوں نے بتایا کہ 'اس اسکیم کا مقصد ریئل اسٹیٹ اثاثوں کو معیشت میں لانا اور ٹیکس بڑھانا ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی ڈیڈ لائن 30 جون ہے جس کے بعد ایسے افراد کے خلاف کارروائی ہوگی جنہوں نے اسکیم سے وقت پر فائدہ نہیں اٹھایا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024