پاکستان کرکٹ کے انوکھے شاہکار - 7
یہ اس فیچر کا چھٹا حصہ ہے- پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا ، پانچواں اور چھٹا حصہ پڑھنے کے لئے کلک کریں-
جاوید کو جانا ہی پڑے گا :
اپنی شناخت، غیر معمولی بیٹنگ سے کروا کر، میانداد نے اپنا پہلا ٹیسٹ 19 سال کی عمر میں 1976 میں کھیلا- 23 سال کی عمر میں انہیں ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا- میانداد ٹیم کے مستقل ممبر کی حیثیت سے ابھرے- ان کی تربیت میں کپتان مشتاق محمد کا بڑا ہاتھ تھا، جنہوں نے اس غیر معمولی، شرارتی اور گستاخ کھلاڑی میں ایک ایسا دماغ پایا جو کھیل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا-

1979 میں پاکستان کی انڈیا سے 2-0 سے شکست کے بعد جب آصف اقبال ریٹائر ہوے تو دو سینئر کھلاڑیوں کے کپتان بناۓ جانے کے امکانات تھے- ظہیر عبّاس اور ماجد خان-
لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے مشتاق محمد (جن کا یہ دعویٰ تھا کہ آصف اقبال نے ان سے کپتانی چھینی ہے) کو آسٹریلیا کے مہمان دورے پر کھیلی جانے والی 1980 کی سیریز کی کپتانی سنبھالنے کو کہا-
بورڈ کے ساتھ کپتانی کے معاملے پر صلاح مشورے کے دوران مشتاق نے نوجوان میانداد کا نام تجویز کیا-
بورڈ کے نۓ چیف، نور خان جو کہ خود بھی میانداد کی قائدانہ صلاحیتوں پر یقین رکھتے تھے، ان سے متفق ہوے اور 23 سالہ میانداد پاکستان کرکٹ ٹیم کے نۓ کپتان بن گۓ-
سینئر کھلاڑیوں کی طرف سے اس فیصلے پر تھوڑی بہت چڑچراہٹ ہوئی، لیکن ظہیر عبّاس اور ماجد خان جو کہ انڈیا کے دورے کے دوران بلکل فٹ نہیں تھے، ٹیم میں اپنی جگہ قائم رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہو گۓ-
میانداد نے کپتان کی حیثیت سے اپنی پہلی سیریز آسٹریلیا کے خلاف 1-0 سے جیت لی- لیکن مہمان ویسٹ انڈیز کے خلاف 1-0 سے ہار گۓ- بہرحال میانداد، آسٹریلیا کے جوابی دورے کے لئے بھی ٹیم کے کپتان بنے رہے جہاں وہ سیریز 2-1 سے ہار گۓ-
اور جب تک 1982 کے آغاز میں سری لنکا اپنا پہلا ٹیسٹ میچ، پاکستان کے خلاف کھیلنے آیا تب تک ماجد خان اور ظہیر عبّاس اپنی حیثیت مستحکم کر چکے تھے-
چناچہ جب بورڈ نے اگلی سیریز کی کپتانی کے لئے میانداد کا نام لیا تو دونوں کھلاڑیوں نے ان کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کردیا-
میانداد کو جھٹکا لگا- پہلے تو وہ سمجھے کہ صرف ظہیر اور ماجد ہی اس میں شامل ہیں لیکن نور خان نے بتایا کہ اس بغاوت میں دوسرے کھلاڑی بھی شامل ہیں-
اب میانداد کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ کراچی بمقابلہ لاہور کا جھگڑا ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے- میانداد کا تعلق کراچی سے تھا اور ان کا خیال تھا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی مسلہ کھڑا کر رہے ہیں- لیکن انہیں اس بات کے یقین تھا کہ لاہور کے عمران خان، سرفراز نواز اور وسیم راجہ اس بغاوت کی حمایت نہیں کریں گے- لیکن وہ غلطی پر تھے-
ماجد اور ظہیر کو نا صرف لاہور کے کھلاڑیوں بشمول مدثر نذر کی حمایت حاصل تھی بلکہ کراچی کے کھلاڑی، اقبال قاسم، محسن خان، وسیم باری اور سکندر بخت بھی اس میں شامل تھے- میانداد کو ہٹا دیا گیا-
ماجد اور ظہیر نے 8 کھلاڑیوں کے دستخط پر مبنی ایک احتجاجی خط بورڈ کے سامنے پیش کیا جس میں یہ کہا گیا کہ میانداد ناتجربہ کار ہیں اور سینئر کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں- کھلاڑی انکی قیادت میں نہیں کھیلنا چاہتے-
جب میانداد نے ایک بلکل نئی ٹیم کے ساتھ سری لنکا کی پہلی ٹیسٹ سیریز کی قیادت کی تو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں موجود عوام نے باغیوں کے خلاف مظاہرہ کیا-
باغیوں کے پوسٹر اور پتلے جلاۓ گۓ، خصوصاً ماجد، ظہیر اور عمران کے-
کراچی پریس نے اس تنازعہ کو ایک بار پھر لاہوری کھلاڑیوں کی کراچی کے میانداد سے نفرت سے تشبیہ دی حالانکہ ان میں سے چار دستخط کراچی کے قاسم، بخت، باری اور محسن کے تھے-
دوسرے ٹیسٹ کے آغاز پر محسن خان اور وسیم راجہ نے باغی اسکواڈ سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور دوسرے ٹیسٹ میں شامل ہو گۓ-
اقبال قاسم نے بھی تیسرے ٹیسٹ کے لئے اپنی موجودگی کا اعلان کر دیا لیکن اس وقت تک میانداد فیصلہ کر چکے تھے اور انہوں نے بورڈ کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا-
نور خان نے اصرار کیا کہ بورڈ میانداد کے ساتھ ہے لیکن انہوں نے اپنا فیصلہ کر لیا تھا لیکن ایک شرط پر کہ ظہیر اور ماجد خان دونوں میں سے کسی کو بھی کپتان نہ بنایا جاۓ-
بورڈ متفق ہو گیا اور بغاوت ختم ہو گئی- ماجد اور ظہیر دونوں کو ہٹا کر عمران خان کو نیا کپتان بنا دیا گیا-
20 سال کے بعد میانداد نے یہ کہا کہ بہت سے کھلاڑی ان کی کپتانی کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ ماجد اور ظہیر کے ساتھ اس لئے مل گۓ کیوں کہ انکا خیال تھا کہ بورڈ ان دونوں میں سے کسی ایک کو کپتان بنا دیگا-
اس کے باوجود بعد میں میانداد نے 34 ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کی- (عمران خان کی طرح)
لیکن 1993 میں ان کا سامنا ایک اور بغاوت سے ہوا جواس بار وسیم اکرم اور وقار یونس نے کی-
انہوں نے ایک بار پھر استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ وسیم اکرم کو کپتان اور وقار یونس کو نائب کپتان بنا دیا گیا-
بہرحال 1994 میں وقار نے وسیم اکرم کے خلاف بغاوت کردی، وسیم نے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ سلیم ملک کو سمجھوتہ کپتان بنا دیا گیا-
ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار