ذاکر نائیک نے متنازع بیان پر ملائیشیا سے معافی مانگ لی
معروف بھارتی مبلغ اور اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ملائیشیا کے کثیرالثقافتی معاشرے میں قومیت کے حوالے سے حساس بیان دینے پر معافی مانگ لی۔
باضابطہ معافی مانگنے سے ایک روز قبل ہی انہیں پولیس نے ان سے ان کے بیان کے بارے میں تفتیش کی تھی جس پر انہیں بے دخل کرنے کے مطالبے بھی سامنے آئے تھے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ذاکر نائیک ٹیلیویژن پر آنے والے بنیاد پرست مبلغ ہیں جنہوں نے امریکا میں 11 ستمبر 2011 کو ہونے والے حملے کو اندرونی کارروائی قرار دیا تھا۔
2016 میں وہ بھارت چھوڑ کے مسلم اکثریت والے ملک ملائیشیا منتقل ہوگئے تھے جہاں انہیں مستقل رہائش فراہم کردی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ‘حساس بیان‘ پر ذاکر نائیک کو ملائیشیا میں بھی تفتیش کا سامنا
خیال رہے کہ مبینہ طور پر انتہا پسندی پر اکسانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں ڈاکٹر ذاکر نائیک بھارت کو مطلوب ہیں اور اس سلسلے میں نئی دہلی نے گزشتہ برس ملائیشیا سے انہیں بے دخل کرنے کی درخواست بھی کی تھی جو مسترد ہوگئی تھی۔
حال ہی میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ایک بیان کے دوران کہا تھا کہ ’ہندوؤں کو ملائیشیا میں اس سے 100 گنا حقوق حاصل ہیں جتنے بھارت میں مسلمان اقلیت کو ملتے ہیں‘ اس کے ساتھ انہوں نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ ’چینی ملائیشیوں کو ان سے پہلے ملک بدر کرنا چاہیے تھا‘۔
مذکورہ بیان کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ملائیشیا سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔
جس کے بعد پیر کے روز پولیس نے ان سے امن و عامہ کے بگاڑ پر اکسانے کے مقصد سے جان بوجھ کر توہین کرنے کے الزام پر 10 گھنٹوں تک تفتیش کی تھی۔
مزید پڑھیں: بھارت: معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر منی لانڈرنگ کا الزام
تاہم آج (منگل کے روز) ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بدخواہوں نے ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا اور اسے ’حیرت انگیز جعلسازی‘ قرار دیا۔
بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا ہر گز مقصد کسی فرد یا برادری کو پریشان کرنا نہیں تھا، یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے اور میں اس غلط فہمی کے لیے دل سے معذرت خواہ ہوں‘۔
ملائیشین خبررساں ایجنسی برنامہ کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے حد پار کی اور کابینہ کے متعدد وزرا نے انہیں بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ پولیس نے ان کے ملائیشیا میں کہیں بھی عوامی سطح پر گفتگو کرنے پر پابندی لگادی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف تحقیقات کا حکم
اس سے قبل ملائیشین حکومت نے اس خطرے کے پیشِ نظر ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تھا کہ اس سے کچھ مسلمان تشویش کا شکار ہوسکتے ہیں جبکہ سیاسی مخالفین کو بھی جواز مل سکتا ہے۔
واضح رہے کہ 3 کروڑ 20 لاکھ کی آبادی والے ملک ملائیشیا میں 60 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اس کے ساتھ بھارتی اور چینی نسل کی کمیونٹیز بھی مقیم ہیں۔