• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

حکومت، ایم کیو ایم وفود کی 'ملاقات': خالد مقبول وزارت چھوڑنے کے فیصلے پر قائم

شائع January 13, 2020
ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور تحریک انصاف کے اسد عمر اپنے اپنے وفود کی سربراہی کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور تحریک انصاف کے اسد عمر اپنے اپنے وفود کی سربراہی کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت اپنی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کو منانے میں ناکام ہوگئی ہے اور ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی وزارت سے مستعفی ہونے کے اپنے اعلان پر قائم ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے مطالبات پورے نہ کیے جانے پر خیال رہے کہ گزشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے آئی ٹی کی وزارت چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: خالد مقبول صدیقی کا وزارت آئی ٹی چھوڑنے کا اعلان

آج حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا وفد اسد عمر کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان کے دفتر بہادرآباد پہنچا جہاں ان کے ہمراہ فردوس شمیم، حلیم عادل شیخ، خرم شیر زمان، رکن قومی اسمبلی آفتاب ملک اور دیگر اراکین اسمبلی بھی موجود تھے۔

حکومتی وفد کے اراکین نے بہادرآباد پہنچنے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ خالد مقبول صدیقی کو استعفیٰ واپس لینے کے لیے قائل کر سکیں تاکہ وہ وفاقی وزیر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کردیں۔

روایت کے برعکس جب تحریک انصاف کا وفد بہادرآباد پہنچا تو ایم کیو ایم کی جانب سے ان کا استقبال نہیں کیا گیا جس کے بعد اندر جا کر دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔

دونوں جماعتوں کے وفود کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد ملاقات جاری رہی جس میں تحریک انصاف کی خالد مقبول صدیقی کو منانے کی تمام کوششیں بے سود رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم اور ہم ایک جماعت نہیں، انہیں اختلاف کا پورا حق ہے، فواد چوہدری

ایم کیو ایم کی جانب سے مذاکرات میں فیصل سبزواری، خواجہ اظہار الحسن سمیت دیگر اہم رہنما شریک تھے لیکن حکومتی مذاکراتی ٹیم ایم کیو ایم کو منانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

ایم کیو ایم کی جانب سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان سے بار بار وعدے کیے گئے لیکن ان وعدوں کے برعکس اب تک کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے۔

ملاقات کے اختتام پر اسد عمر اور خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملاقات کو خوش آئند قرار دیا۔

اسد عمر نے کہا کہ خالد مقبول صدیقی کی خواہش ہے کہ وہ کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن ہماری خواہش ہے کہ وہ کابینہ کا حصہ رہیں۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی قرار

خالد مقبول صدیقی نے اپنی گفتگو میں اسے مذاکرات کے بجائے ملاقات قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات پہلے سے طے شدہ تھی اور اسی سلسلے میں تحریک انصاف کے وفد نے آج دورہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران قومی امور اور سندھ کے شہری علاقوں کے امور پر بھی گفتگو ہوئی اور ہم یہاں آنے پر اسد عمر کے شکر گزار ہیں۔

حکومتی مذاکراتی وفد کی سربراہی کرنے والے اسد عمر نے کہا کہ پچھلے ہفتے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران کراچی کے منصوبوں پر گفتگو ہوئی اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ 13تاریخ کو کراچی آنے پر میں بہادرآباد بھی آؤں گا۔

انہوں نے کہا کہ وفاق کی جانب سے کراچی کے جن منصوبوں پر کام جاری ہے ان سے خالد مقبول صدیقی تو آگاہ ہیں لیکن ہم نے کراچی میں موجود ایم کیو ایم کی دیگر سینئر قیادت کو بھی ان ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت نے کیا فیصلہ سنایا تھا؟

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اس شہر میں رہنے والوں کو دہائیوں سے ان کا حق نہیں ملا اور ہماری مشترکہ جدوجہد ہے کہ کراچی کے باسیوں کو ان کا یہ حق دلائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کو کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس ملک اور شہر کے لیے ساتھ مل کر کام کرنے میں ہی سب کی بہتری ہے اور ہم اسی طرح ساتھ مل کر چلیں گے۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ کراچی کے عوام کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ فروری کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم عمران خان کراچی آئیں گے اور بڑے منصوبوں کا افتتاح کریں گے جبکہ دیگر بڑے منصوبوں پر بھی جلد کام شروع ہو جائے گا۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کل کی میری پریس کانفرنس میں بھی کوئی سنسنی خیزی نہیں تھی بلکہ ہم نے نمبرز کے ذریعے حکومت کا ساتھ دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ جاری رکھیں گے اور ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ کابینہ میں بیٹھے رہنا اب بے سود سا محسوس ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی جانب سے کیے گئے تمام وعدے یاد ہیں اور ہم ان پر عمل کر چکے ہیں اور باقی خوشخبریاں اس وقت سنائیں گے جب ہم سے کیے گئے وعدے سڑکوں پر پورے ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں اگلی حکومت کس جماعت کی ہوگی؟

خالد مقبول صدیقی کے استعفے کی منظوری کے حوالے سے کیے گئے سوال پر اسد عمر نے جواب دیا کہ خالد بھائی نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس پر بعد میں گفتگو ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کبھی کبھی انسان کا دل کرتا ہے کہ کابینہ میں نہ بھی ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، میں بھی 7 ماہ کابینہ سے باہر گزار کر آیا ہوں، تو میں ان کی اس خواہش کو سمجھ سکتا ہوں لیکن ہماری خواہش یہی ہو گی کہ خالد بھائی کابینہ میں شامل رہیں، اس پر بات چیت ہوتی رہے گی'۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں کئی چھوٹے منصوبے شروع ہو کر ختم ہو گئے جبکہ بڑے منصوبے بھی تکمیل کے قریب ہیں جبکہ مزید بڑے منصوبے بھی جلد شروع ہو جائیں گے۔

اس موقع پر کراچی کو 162 ارب روپے کے فنڈ ملنے کے حوالے سے سوال پر اسد عمر نے کہا کہ 162 ارب روپے کے ایک ایک منصوبے کے حوالے سے میں اگلی مرتبہ باقاعدہ پاور پوائنٹ پریزنٹیشن بنا کر لاؤں گا جس میں ہر منصوبے کی تفصیل بتائی جائے گی لیکن خوشخبری یہ ہے کہ 162ارب روپے سے زیادہ کے منصوبے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ترقیاتی پہلو سے کراچی کے دو بڑے مسائل میں سے ایک پانی ہے جس میں 'کے فور' کا منصوبہ ناقص منصوبہ بندی کا شکار ہوا جس سے اس کی لاگت میں اضافہ ہوا، نیسپاک کو اس کا جائزہ لینے کا کہا گیا جس نے جائزہ مکمل کر لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی تکنیکی کمیٹی اب نیسپاک کی رپورٹ کا جائزہ لے رہی ہے اور جیسے ہی منصوبے پر سندھ حکومت اپنا کام مکمل کر لے گی تو وہ منصوبہ ہمارے پاس واپس آئے گا اور ہم اسے اپنیک سے منظور کرانے کے ساتھ ساتھ وعدے کے مطابق منصوبے کا آدھا پیسہ ہم دیں جس میں سے 10 سے 11 ارب ہم پہلے ہی جاری کر چکے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کا دوسرا بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ ہے جس کو حل کرنے کے لیے ہم تین مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک ریلوے کا منصوبہ ہے جو ہم نے سٹی اسٹیشن سے پپری تک بنانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ارب پتی شخص کو ’چاند‘ پر جانے کے لیے نوجوان خاتون کی تلاش

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ لیاری ایکسپریس وے اور ناردرن بائی پاس کا منصوبہ ہے جس میں سے ناردرن بائی پاس کی فزیبلیٹی تقریباً مکمل ہو چکی ہے جو جنوری کے آخر تک مکمل ہو جائے گی جبکہ لیاری ایکسپریس وے کے کام کے حوالے سے بھی اس ماہ جنوری کے اختتام تک منصوبہ بندی مکمل کر لی جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے اس بات کی تصدیق کی کہ خالد مقبول صدیقی ابھی تک کابینہ سے علیحدگی کی خواہش پر قائم ہیں اور ہماری خواہش بھی برقرار ہے کہ وہ کابینہ کا حصہ رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان سے اس حوالے سے بات چیت ہوئی تھی اور آئندہ چند دنوں میں مزید بات چیت متوقع ہے۔

اسد عمر نے گورنر سندھ کی تبدیلی کی خبروں کو افواہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ گورنر سندھ عمران اسمعٰیل بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور ان کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔

اسمبلیوں سے اتحادی جماعتوں کے علیحدہ ہونے کے حوالے سے سوال کے جواب میں سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اسمبلی میں ووٹ آتے ہیں اور اب تمام مواقع پر ہمارے ووٹ کم ہونے کے بجائے ہمیشہ بڑھے ہیں۔

ایم کیو ایم کے تحفظات

گزشتہ روز خالد مقبول صدیقی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، میرٹ کے قیام، انصاف اور سندھ کے شہری علاقوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 2 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے لیکن سب باتیں کاغذوں تک محدود رہیں۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ 'میرے لیے ایسی صورت حال میں وزارت میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ حکومت میں بیٹھے رہیں اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام انہی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں جن کا وہ ہمارے حکومت میں آنے سے قبل سامنا کر رہے تھے'۔

ایم کیو ایم کی جانب سے ایک عرصے سے حکومت کی جانب سے وعدے پورے نہ کرنے اور کراچی اور حیدرآباد کو نظرانداز کرنے کا شکوہ کیا جاتا رہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024