ایرانی میزائل حملوں میں 11فوجی زخمی ہوئے، امریکا کی تصدیق
امریکی سینٹرل کمانڈ نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ ہفتے ایران کی جانب سے امریکی فوجی اڈوں پر کیے گئے میزائل حملوں میں 11 امریکی فوجی زخمی ہوئے تھے اور کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
یاد رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کیے تھے اور ایران کی جانب سے 80امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: عراق: امریکی فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ ہلاک
امریکی کی جانب سے اس دعوے کی تردید کی گئی اور اب امریکی سینٹرل کمانڈ نے حملے میں صرف 11 امریکی فوجیوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان کیپٹن بل اربن نے اپنے بیان میں کہا کہ 8 جنوری کو الاسد کی ایئربیس پر ایرانی حملے میں کوئی بھی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا تھا لیکن دھماکوں کے نتیجے میں بے ہوشی کی علامات ظاہر ہونے پر متعدد فوجیوں کا علاج کیا گیا تھا اور اب بھی ان کا معائنہ جاری ہے۔
حملے کے وقت ایئربیس پر موجود 1500 امریکی فوجیوں میں سے اکثر کو اعلیٰ حکام کی جانب سے حملے کی قبل از وقت اطلاع موصول ہونے پر ٹرکوں میں سوار کر کے بنکر میں پہنچا دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا جوابی وار، عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے
امریکی فوج کی گزشتہ رپورٹس کے مطابق ایئربیس پر حملے میں مالی نقصان ہوا تھا تاہم اس وقت بھی فوجی نقصان کی تردید کی گئی تھی۔
کیپٹن بل اربن نے کہا کہ حملے کے بعد احتیاطی تدابیر کے طور پر چند فوجیوں کو الاسد ایئربیس سے منتقل کردیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 8 فوجیوں کو جرمنی میں لینڈزٹل اور 3 کو کویت میں واقع کیمپ ارفجان منتقل کردیا گیا تھا۔
مغربی عراق میں الاسد کی ایئربیس کے ساتھ ساتھ ایران کے میزائلوں نے اربل کے اڈے کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا جس پر امریکی اور غیرملکی اتحادی فوج کے دستے موجود تھے لیکن انہیں بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد ٹرمپ کی ایران کو دھمکی
امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان نے کہا کہ ان فوجیوں کو مکمل معائنے کے بعد جیسے ہی امور کی انجام دہی کے لیے فٹ سمجھا جائے گا، ویسے ہی وہ واپس عراق لوٹ جائیں گے۔
امریکا ایران کشیدگی میں کب کیا ہوا؟
ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں شدت اس وقت آئی تھی جب 27 دسمبر کو بغداد کے شمال میں کرکوک میں عراقی فوجی اڈے پر 30 راکٹ فائر ہونے کے نتیجے میں ایک امریکی شہری کی ہلاکت ہوئی۔
اس کے جواب میں امریکی فورسز نے 29 دسمبر کو عسکری آپریشن (او آئی آر) کے تحت ایران کی حامی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے عراق اور شام میں 5 ٹھکانوں پر حملہ کیا جس سے 25 جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: عراق: فضائی حملوں کے بعد مظاہرین کا امریکی سفارتخانے پر حملہ
جنگجوؤں کی ہلاکت پر ہزاروں افراد نے بغداد میں موجود امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا تاہم اس سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے عملے کے بیشتر ارکان کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا اور تہران کو خبردار کیا تھا کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔
اس تمام تر تنازع میں کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب امریکی ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے جبکہ ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کے کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے۔
مزید پڑھیں: عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت، 93 ہلاکتوں کی تصدیق
قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا اور تہران نے امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے اس قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
8 جنوری کو ایران نے قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں امریکی فوج کے 2 اڈوں پر 15بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا تھا جس میں 80 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
امریکا کی جانب سے حملے میں ہلاکتوں کے دعوے کو مسترد کردیا گیا تھا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عوام کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب تک ’سب ٹھیک ہے‘، ہمارے پاس دنیا کی سب سے بہترین اور طاقتور فوج ہے۔