پی آئی اے کی رپورٹس کاپی پیسٹ اور ایک بندے کی تعریفیں ہیں، چیف جسٹس
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ارشد ملک کی تعیناتی کے حوالے سے کیس میں ڈیپوٹیشن پر سی ای او لگانے کے سلسلے میں عدالت کی معاونت کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
سی ای او، پی آئی اے نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے انہیں کام سے روکنے کے عبوری حکم نامے کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس کی آج چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت اور پی آئی اے کی رپورٹس ایک ہی بندے نے بنائیں، صرف کاپی پیسٹ کام ہی چل رہا ہے، رپورٹ میں صرف ایئر مارشل کی تعریفیں کی گئیں، سمجھ نہیں آرہا تعریفیں کہاں جا کر ختم ہوں گی۔
اس موقع پر وکیل نعیم بخاری نے بتایا کہ پی آئی اے میں صرف پانچ افسران ایئر فورس سے آئے جن میں ارشد ملک بھی شامل ہیں جو جے ایف تھنڈر طیارے کی تیاری کا بھی حصہ رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں تعیناتی کا پورا طریقہ بتایا تھا اور دریافت کیا کہ کیا تعیناتی کے لیے عالمی سطح پر اشتہار دیا گیا تھا؟
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ عدالتی مداخلت سے کئی مسائل حل اور کئی نئے پیدا ہوئے، اسٹیل مل کیس میں عدالت کی مداخلت سے نقصان ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: ایئر مارشل ارشد محمود کا بطور سی ای او پی آئی اے بحالی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع
اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پی آئی اے میں بہت تجربے ہو چکے ہیں، ایک جرمن سربراہ جاتے ہوئے جہاز ہی ساتھ لے گیا، ایوی ایشن، نیب اور ریاست کو یہ معلوم ہی نہیں، کمال کی بات ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے رپورٹ جمع کرانے کا کہا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رپورٹ کا کیا کریں؟ پی آئی اے ایک جہاز کی حفاظت تو کر نہیں سکا، واجبات کی عدم ادائیگی پر 50 جہاز کراچی ائیرپورٹ پر کھڑے گل سڑ رہے ہیں جنہیں کبھی استعمال کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، کیا پی آئی اے نے جہازوں کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا ہے؟
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ دنیا کی کسی ائیر لائن میں نہیں ہوا کہ کسی کا سی ای او جہاز لے کر بھاگ گیا ہو، کسی متنازع ریاست میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔
وکیل سلمان اکرم نے موجودہ سی ای او سے متعلق بتایا تو بینچ نے استفسار کیا کہ اگر ڈیپورٹیشن پر سی ای او کو رکھا گیا تو پھر تعیناتی کا سارا عمل کیوں کیا گیا؟ ڈیپوٹیشن پر کیسے سی ای او لگا سکتے ہیں؟
عدالت نے ڈیپوٹیشن کے حوالے سے عدلیہ کی معاونت کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 20 فروری تک ملتوی کردی۔
پی آئی اے کے سی ای او کا معاملہ
خیال رہے کہ 31 دسمبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی لگادی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے اور پی آئی اے میں خرید و فروخت، پالیسی سازی اور ایک کروڑ سے زائد کے اثاثے بھی فروخت کرنے سے روک دیا تھا۔
علاوہ ازیں عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو 22 جنوری کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا تھا۔
بعد ازاں ایئر مارشل ارشد محمود نے اپنے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ارشد ملک کی تعیناتی غیر قانونی ہے،فوری برطرف کیا جائے،آڈیٹر جنرل کی رپورٹ
مذکورہ درخواست میں وفاق، کابینہ ڈویژن اور وزارت سول ایوی ایشن کو فریق بنایا گیا تھا اور استدعا کی گئی تھی کہ انہیں عہدے پر بحال کیا جائے۔
21 جنوری کو عدالت عظمیٰ نے ارشد ملک کی بحالی کی درخواست مسترد کردی تھی اور سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ ایئر مارشل ارشد ملک کے خلاف ایئر لائنز سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس عہدے کے لیے ایئر مارشل ارشد ملک تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان کا ایئر لائن سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک نے 1982 میں بی ایس سی کیا اور اس کے بعد وار اسٹیڈیز سے متعلق تعلیم حاصل کی تاہم انہیں ایئر لائن انڈسٹری اور کمرشل فلائٹس سے متعلق سول ایوی ایشن قوانین سے کچھ آگاہی نہیں ہے۔