گمشدہ بچوں کی تلاش میں مددگار ’زینب الرٹ ایپ‘
سندھ پولیس و سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے تعاون سے ماہرین کی جانب سے گمشدہ بچوں کی تلاش میں مددگار ’زینب الرٹ ایپ‘ کو اگرچہ رواں برس مارچ میں ابتدائی طور پر متعارف کرایا گیا تھا تاہم اب یہ نئے فیچرز کے ساتھ گوگل ایپ اور ایپل ایپ اسٹور پر بھی دستیاب ہیں۔
’زینب الرٹ ایپ‘ انوینٹ لیب کی جانب سے تیار کی گئی تھی اور اس ایپ کو تیار کرنے اور اسے عوام کے لیے دستیاب کرانے میں انوینٹ لیب کو سندھ پولیس اور سی پی ایل سی نے معاونت فراہم کی۔
مذکورہ ایپ خصوصی طور پر گمشدہ بچوں کی تلاش کرنے میں مددگار ہے، یہ ایپ اردو اور سندھی سمیت چاروں صوبوں کی بڑی زبانوں یعنی پنجابی اور پشتو میں بھی دستیاب ہے اور اسے کسی طرح کے اسمارٹ فون میں ڈاؤن لوڈ کرکے اس کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
مذکورہ ایپ میں کوئی بھی شخص کسی لاپتا ہونے والے بچے کی تصویر اور اس سے متعلق دیگر معلومات فراہم کرتا ہے جو مذکورہ ایپ اپنے سسٹم کے ذریعے پولیس اور سی پی ایل سی سمیت دیگر سیکیورٹی فراہم کرنے والے اداروں کو فراہم کرتی ہے اور اسی معلومات کی بنا پر ادارے حرکت میں آکر لاپتا بچوں کی تلاش کا کام شروع کرتے ہیں۔
مذکورہ ایپ کو استعمال کرنا انتہائی آسان ہے اور اس کے فیچرز بھی مقامی زبانوں میں ہونے کی وجہ سے آسان ہیں۔
اس ایپ میں گمشدہ بچے کے حوالے سے شکایت درج کروانے والے افراد کی معلومات صیغہ راز میں رکھی جاتی ہے اور ان کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات عام نہیں کی جاتیں، البتہ گمشدہ بچے کی تلاش کے لیے درخواست کو عام افراد کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے تاکہ مذکورہ بچے سے متعلق جلد سے جلد معلومات دستیاب ہوسکے۔
’زینب الرٹ ایپ‘ کی اگرچہ ماضی میں چند شوبز شخصیات اور سماجی رہنما بھی تعریف کر چکے ہیں، مگر حال ہی میں اداکارہ صنم سعید اور حنا دلپذیر نے بھی سندھ پولیس اور سی پی ایل سی کے تعاون سے مذکورہ ایپ کو استعمال کرنے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پیغامات شیئر کیے تھے۔
دونوں اداکاراؤں نے اپنے مداحوں اور عام افراد کو ’زینب الرٹ ایپ‘ کو نہ صرف خود استعمال کرنے کی اپیل کی تھی بلکہ انہوں نے مداحوں سے کہا تھا کہ وہ مذکورہ ایپ سے متعلق اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی آگاہی فراہم کریں تاکہ گمشدہ بچوں کو جلد سے جلد تلاش کرکے والدین کو سکون فراہم کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ہر سال کم از کم ایک ہزار بچے اغوا یا گمشدہ ہوجاتے ہیں اور سال 2019 میں ہی صرف 900 بچے اغوا ہوگئے تھے جن میں سے 450 بچے اپریل 2020 تک لاپتا تھے۔
پاکستان میں کم سن بچوں کے استحصال اور ان کے قتل کے واقعات میں بھی چند سال سے اضافہ دیکھا گیا ہے اور مذکورہ ایپ کا نام بھی اغوا کے بعد بیہمانہ تشدد کرکے قتل کی گئی پنجاب کی کم سن بچی زینب کے نام پر رکھا گیا ہے۔
9 سالہ بچی زینب انصاری کو پنجاب کے شہر قصور میں جنوری 2018 میں ریپ کے بعد قتل کردیا گیا تھا.
بعد ازاں ان کے بہیمانہ قتل میں ملوث عمران علی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا اور عدالت نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔
عدالتی احکامات کے بعد عمران علی کو اکتوبر 2018 میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
زینب الرٹ ایپ کو گوگل پلے اسٹور اور ایپل اسٹور سمیت مذکورہ لنک پر کلک کرکے بھی ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے