حد سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے کارکردگی متاثر ہوئی، فخر زمان
قومی ٹیم کے اوپننگ بلے باز فخر زمان نے کہا ہے کہ حد سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے ان کی کارکردگی خراب ہوئی اور لاک ڈاؤن کے دوران محنت کی ہے جس کی بدولت وہ انگلینڈ کے خلاف اچھی کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں گے۔
منگل کو آن لائن پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اوپننگ بلے باز نے کہا کہ 2018 کا سال میرے لیے اچھا رہا تھا اور 2019 میں بدقسمتی سے مجھ سے جو توقعات تھیں میں ان پر بالکل بھی پورا نہیں اتر سکا حالانکہ میں نے اپنی پوری محنت کی تھی لیکن اس برے وقت سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور اپنی خامیوں پر کام کیا، اب کوشش کروں گا کہ آنے والی سیریز میں اچھا پرفارم کروں۔
مزید پڑھیں: پاکستانی ٹیم کی دورہ انگلینڈ کے لیے یکم جولائی کو روانگی متوقع
انہوں نے کہا کہ ایک دو سال بہت اچھے گزرے لیکن گزشتہ سال اتنا اچھا نہیں گزرا لیکن میرے ہاتھ میں سخت محنت ہے جو میں کر رہا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں فخر نے کہا کہ انگلینڈ کی وکٹیں خصوصاً جولائی اگست میں بلے بازوں کے لیے زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہیں کیونکہ وہاں گرمی زیادہ ہو جاتی ہے۔
کرکٹ میں کورونا کی وجہ سے لاگو نئے قوانین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہو گی کہ نئے قوانین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں اور اگر بلے بازوں کو مدد ملی تو ہمیں بحیثیت بلے باز خوشی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام پیشہ ورانہ کھلاڑی ہیں اور وہ گیند کو چمکانے کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیں گے، ان نئے قوانین سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا اور موجودہ حالات میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کرکٹ دوبارہ شروع ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: دورہ انگلینڈ کیلئے پاکستان کے 29 رکنی اسکواڈ کا اعلان، فواد اور حیدر شامل
انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل دوروں کی مصروفیت کی وجہ سے مجھے اتنا وقت نہیں ملا تھا کہ میں اپنی خامیوں پر کام کر سکوں، جب تکنیک یا فٹنس سمیت کوئی اور مسئلہ آ جاتا ہے تو مشکل ہوتی ہے اور اس لاک ڈاؤن کے دوران میں نے اتنی ٹریننگ کی ہے کہ میں اپنی سابقہ کارکردگی سے بہتر پرفارمنس دے سکوں گا۔
اوپننگ بلے باز نے کہا کہ انگلینڈ کے خلاف تین ٹی20 میچ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان میچوں سے میرا کیریئر کسی بھی جانب جا سکتا ہے۔
انہوں نے پرفارمنس میں زوال پر اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ میں حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گیا تھا کیونکہ میں ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی پہلے ہی اوور سے جارحانہ انداز نہیں اپناتا تھا بلکہ تھوڑا وقت لیتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں مکی آرتھر کو کریڈٹ دوں گا کہ جب میں ابتدا میں گیا تو انہوں نے کہا کہ بالکل ٹینشن لیے بغیر فری مائنڈ سے کرکٹ کھیلنی ہے، وہ فری مائنڈ سے کھیلتے کھیلتے میں نے اپنے قدرتی انداز کو چھوڑ دیا اور آپ چاہے کتنے ہی بڑے بلے باز بن جائیں، نئی گیند پر آپ پہلی ہی گیند سے نہیں مار سکتے۔
یہ بھی پڑھیں: کرکٹ میں تھوک سے گیند چمکانے پر پابندی، متبادل کھلاڑی بھی متعارف
فخر زمان نے کہا کہ میں حد سے زیادہ خود اعتمادی (اوور کانفیڈنس) کا شکار ہو کر کئی گیندوں کو اس طرح سے نہیں کھیلتا تھا جس طرح سے کھیلنا چاہیے تھا اور میں نے اسی لیے اپنی تکنیک کے بجائے ذہنی مہارت پر زیادہ کام کیا ہے اور اب جب آپ مجھے کھیلتے ہوئے دیکھیں گے تو میں بہت تبدیل نظر آؤں گا۔
اسپن باؤلنگ کی صلاحیت کے باوجود گیند بازی نہ کرنے کے سوال پر فخر زمان نے کہا کہ میں جب ٹیم میں آیا تو محمد حفیظ، شعیب ملک، شاداب خان، عماد وسیم، محمد نواز جیسے آل راؤنڈرز کی وجہ سے مجھے بہت کم باؤلنگ ملتی تھی لیکن اے ٹیم میں کم اسپنر ہونے کی وجہ سے مجھے موقع مل جاتا تھا۔
چیمپیئنز ٹرافی 2017 کے فائنل کے ہیرو نے کہا کہ پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا ہمیشہ خواب رہے گا، میرے بارے میں کسی کی کوئی بھی رائے ہو کہ یہ ٹی20 یا ون ڈے کا کھلاڑی ہے لیکن میں ہمیشہ ٹیسٹ میچ کو ترجیح دوں گا تاکہ میں طویل عرصے تک ملک کے لیے ٹیسٹ میچ کھیلوں اور ایسی تیاری کروں گا جو ٹیسٹ کے لیے بہترین ہو اور خود کو پانچ دن کے میچ کے لیے تیار کر رہا ہوں۔
فخر زمان نے کہا کہ سری لنکا کے خلاف آخری سیریز اچھی نہیں رہی تھی لیکن میں نے سنجیدگی سے کام کرتے ہوئے بین الاقوامی کرکٹ کے لیے خود پر کام کیا ہے، کوشش کروں گا کہ اچھی کارکردگی دکھا سکوں کیونکہ یہ میری کم بیک سیریز ہے اور میرا پورا کیریئر ان تین میچوں سے جڑا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی خصوصاً فائنل میں بھارت کے خلاف سنچری بنا کر راتوں رات ہیرو بننے والے اوپننگ بلے باز فخر زمان نے ابتدائی ڈیڑھ سال بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کی جانب سے ون ڈے کرکٹ میں ڈبل سنچری بنانے والے پہلے بلے باز بن گئے تھے۔
تاہم بعد ازاں غٰیر ذمے دارانہ بیٹنگ کی وجہ سے ان کی بیٹنگ روبہ زوال رہی اور وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے اور پھر سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں خراب کارکردگی کے بعد انہیں قومی ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا تھا۔