نیوی سیلنگ کلب: ایسا لگتا ہے ریاست کا کہیں وجود ہی نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے راول جھیل کے کنارے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کے خلاف کیس میں ریمارکس دیے کہ ایسا لگتا ہے کہ ریاست کا کہیں وجود ہی نہیں اور قانون کی عملدراری یقینی بنانے کے لیے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین کو بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رنیوی سیلنگ کلب کی تعمیر اور نیول فارمز کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
سماعت میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین علی احمد پیش ہوئے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت میں آپ کو بار بار طلب کرنا بڑا ناخوشگوار ہوتا ہے لیکن معاملہ سمجھنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیوی کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، کلب بنانے کا کردار قانون میں کہاں لکھا ہے؟، عدالت
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مکمل طور پر لاقانونیت ہے قانون تو کہیں پر نظر ہی نہیں آتا، ایسا لگتا ہے کہ ریاست کا کہیں وجود ہی نہیں، جب بھی معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لایا جاتا ہے تو چیزیں ٹھیک ہو جاتی ہیں۔
انہوں نے چیئرمین سی ڈی سے استفسار کیا کہ ماسٹر پلانرز میں زون تھری اور زون فور سے متعلق کیا پلان بنایا گیا تھا جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے جواب دیا کہ زون فور کو ماسٹر پلان میں مکمل طور پر گرین ایریا رکھا گیا تھا۔
چیئرمین سی ڈی نے بتایا کہ اسلام آباد میں جو زمینیں حاصل کی گئیں ان کے معاوضے آج تک بھی مکمل ادا نہیں کیے گئے۔
چیئرمین سی ڈی نے مزید کہا کہ 30 سالوں میں معاوضہ تو ادا نہیں کیا گیا لیکن فراڈ کی حوصلہ افزائی کی گئی، جعلی کاغذات بنائے گئے جس میں سی ڈی اے کے افسران بھی ملوث رہے۔
چیف جسٹس سے دریافت کیا کہ کیوں ایف آئی اے اور آئی بی ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہیں، اسلام آباد کا جو بھی ایشو اٹھائیں اشرافیہ کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی نظر آتی ہے۔
مزید پڑھیں: سربراہ پاک بحریہ کا عدالت میں سیلنگ کلب کی تعمیر کا دفاع
جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین سی ڈی اے سے دریافت کیا کہ کیا آپ کا کوئی اہلکار نیول ہیڈ آفس میں چھاپہ مار سکتا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے جو ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہے وہ یہ کیسے روک سکتی ہے، مفادات کا ٹکراؤ ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ان چیزوں سے قانون پر اعتماد ختم ہوتا ہے۔
عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کہا کہ آپ قانون پر عملدرآمد کرانے کے لیے متعلقہ اتھارٹی ہیں، جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سی ڈی اے ایکشن لے رہا ہے کل میں نے ہاؤسنگ سوسائٹیز سے متعلق بھی بریفنگ لی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کیس میں آپ قانون پر عملدرآمد نہیں کروا پا رہے، کیا آپ کوئی ایکشن لے سکتے ہیں، اس عدالت کو سچ بتائیں۔
جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ یہ مشکل ہے میں اس بات کو مانتا ہوں لیکن ہم اپنی کوشش کریں گے۔۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا راول ڈیم کے کنارے پاکستان نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کا حکم
چیئرمین سی ڈی نے مزید بتایا کہ 1992 میں ماسٹر پلان میں ترمیم کر کے زون فور میں 20 کنال کے فارمز کی اجازت دی گئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کتنے چیئرمین سی ڈی اے ہیں جو چیف کمشنر بھی رہ چکے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے، کیا ریونیو افسر بھی ان دونوں عہدوں کے ماتحت آتا ہے؟
جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے جواب دیا کہ 2 چیئرمین سی ڈی اے چیف کمشنر بھی رہ چکے اور ریونیو افسر دونوں عہدوں کے ماتحت ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے زون 4 کے رقبے کے بارے میں سوال کیا جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ زون فور پہلے 1600 کنال رقبے پر تھا اب 400 کنال باقی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا آپ نے جائزہ لیا کہ 400 کنال رقبے کی پوری زمین موجود ہے، قبضہ تو نہی ہوا، کیا آپ کو معلوم ہے یہاں مافیا ہے؟
چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ اسلام آباد میں شاملات پر قبضہ کرنا بہت مشکل کام ہے، جب تک ریونیو اور پولیس دونوں شامل نہ ہوں قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ کیا آپ نے ضلعی عدالتوں کی حالت دیکھی ہے وہاں کوئی انسان جا نہیں سکتا، عام آدمی وہاں جاتے ہیں اس لیے ضلعی عدالتوں کا یہ حال ہے۔
مزید پڑھیں:نیوی کلب کو سیل نہ کرنے پر حکام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اشرافیہ پر قانون نافذ نہیں ہوتا اس لیے وہ وہاں نہیں جاتے۔
بعدازاں عدالت نے پاکستان نیول فارمز کی تعمیرات روکنے کے حکم اور راول جھیل کے کنارے نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کے حکم امتناع میں 26 ستمبر تک توسیع کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چئیرمین سی ڈی اے کو عدالتی حکم امتناع پر عمل درآمد کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی ٹیم بھیج کر چیک کریں اور رپورٹ پیش کریں۔
ساتھ ہی ہدایت کی کہ چئیرمین سی ڈی اے قانون کی عمل داری یقینی بنانے کا بیان حلفی جمع کرائیں اور کیسز کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کا حکم بھی دیا۔
بعدازاں راول جھیل کے کنارے تعمیرات کے خلاف کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتہ 26 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔
نیوی سیلنگ کلب کے معاملے کا پس منظر
خیال رہے کہ رواں سال جولائی میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو اس کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔
سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کلب کی عمارت کی غیرقانونی اور غیرمجاز تعمیر کو فوری طور پر روکے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ 'اتھارٹی کے نوٹس میں ایک مرتبہ پھر یہ آیا کہ غیرقانونی تعمیراتی سرگرمیاں پھر بحال کردی گئی ہیں اور کلب کو فعال کردیا گیا ہے، یہ سی ڈی اے (بائی لاز) کی صریح خلاف ورزی ہے جسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے'۔
ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا تھا کہ 'آپ کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ غیرقانونی/غیرمجاز تعمیراتی کام اور پاکستان نیوی سیلنگ کلب کی فعال سرگرمیوں کو فوری طور پر روکیں'۔
بعد ازاں راول جھیل کے کنارے تعمیرات کے معاملے میں پاکستان نیول فارمز سے متعلق شکایت کنندہ زینت سلیم کی عدالت عالیہ میں دائر کردہ درخواست پر معاملہ مزید ابھرا تھا اور پھر 16 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 'غیرقانونی تعمیرات' کے خلاف درخواست پر چیف آف نیول اسٹاف، اٹارنی جنرل برائے پاکستان اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو نوٹسز جاری کیے تھے۔
مزید پڑھیں: جو درخواست دیکھو ایسا لگتا ہے قانون صرف کمزور کیلئے ہے، عدالت
جس کے بعد 23 جولائی کی سماعت میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے راول ڈیم کے کنارے غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کیس میں پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کردی تھی۔
عدالتی حکم کے بعد 30 جولائی کو کیس کی جو سماعت ہوئی تھی اس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول حکام کی جانب سے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر پر جواب نہ جمع کروانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
علاوہ ازیں 6 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین عامر علی احمد، سیکریٹری کابینہ ڈویژن احمد نواز سکھیرا اور چیف آف نیول اسٹاف ظفر محمود عباسی کے خلاف نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
بعد ازاں 7 اگست کو مرکزی درخواست پر سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی سیلنگ کلب کی نئی رکنیت کے خلاف حکم امتناع جاری کرتے ہوئے بحری حکام کو 19 اگست تک جواب داخل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
19 اگست کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ یہاں پر قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے، ہر روز ایک نئی درخواست آتی ہے کہ قانون پر عمل درآمدا نہیں ہورہا۔
جس کے بعد چیف آف نیول اسٹاف (سی این ایس) نے ’پرتعیش کلب‘ کی تعمیر سے متعلق عدالت میں اپنا جواب جمع کروایا تھا جس میں انہوں نے اس کلب کی تعمیر کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا تھا کہ یہ ایک اسپورٹس کی سہولت گاہ ہے جسے ماحولیاتی ماہرین سے منظوری لینے کے بعد وفاقی حکومت کی ہدایت پر قائم کیا گیا۔
چیف آف نیول اسٹاف ظفر محمود عباسی نے وکیل اشتر اوصاف علی اور راجا اظہار الحسن کے توسط سے جمع کروائی گئی تحریری رپورٹ میں کہا تھا کہ ’نیشنل واٹر اسپورٹس سینٹر (این ڈبلیو ایس سی) ’روایتی لحاظ سے کلب ہے اور نہ ہی کمرشل ادارہ ہے‘۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’چیف آف نیول اسٹاف نے سابق افسر کو پاکستان میں پانی کے کھیلوں کی تمام سرگرمیوں بشمول بادبانی، کشتی رانی، واٹر اسکینگ اور پیڈل سے چلنے والی کشتیوں کا پیٹرن ان چیف مقرر کیا تھا'۔