• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستان نے مذہبی آزادی پر 'بلیک لسٹ' کرنے کا امریکی اقدام مسترد کردیا

شائع December 9, 2020 اپ ڈیٹ December 10, 2020
دفترخارجہ کے مطابق امریکا کو اپنے مؤقف سے آگاہ کردیا ہے—فائل/فوٹو: ریڈیو پاکستان
دفترخارجہ کے مطابق امریکا کو اپنے مؤقف سے آگاہ کردیا ہے—فائل/فوٹو: ریڈیو پاکستان

دفتر خارجہ نے امریکا کی جانب سے پاکستان کو بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت 'مخصوص تشویش کے حامل ممالک' (سی پی سی) میں دیگر ممالک کے ساتھ شامل کرنے کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اس کو 'من گھڑت اور مخصوص فیصلہ' قرار دیا ہے۔

دفتر خارجہ نے بیان میں بھارت کو بلیک لسٹ سے باہر رکھنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان کو اس فہرست میں رکھنا حقیقت کے بالکل برعکس ہے اور اس عمل کے مصدقہ ہونے پر شبہات پیدا ہوئے ہیں'۔

بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کے اقدامات عالمی سطح پر مذہبی آزادی کے مقصد کو فروغ دینے کی جانب پیش رفت میں معاون نہیں ہوتے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے پاکستان سمیت 9 ممالک کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی فہرست میں شامل کردیا

دفتر خارجہ نے کہا کہ 'یہ قابل افسوس ہے کہ امریکا نے اس حقیقت کو بھی نظر انداز کردیا کہ پاکستان اور امریکا اس معاملے پر باہمی سطح پر تعمیری انداز میں مصروف ہیں'۔

خیال رہے کہ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیکل پومپیو نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت امریکا نے پاکستان، چین، ایران، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان، نائیجیریا، شمالی کوریا، میانمار اور اریٹریا کو سی پی سی میں شامل کیا ہے۔

کمیشن کی 2020 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان بھر میں مذہبی آزادی سے متعلق حالات مسلسل منفی جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'منظم توہین مذہب اور احمدی مخالف قوانین کا نفاذ اور مذہبی اقلیتوں بشمول ہندو مسیحی اور سکھوں کی جبری اسلام میں تبدیلی کو روکنے میں حکام کی ناکامی نے مذہبی اور عقائد کی آزادی کو شدید محدود کردیا ہے'۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 80 افراد توہین مذہب پر قید ہیں جس میں سے نصف عمر قید یا سزائے موت کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی مذہبی آزادی کی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام برقرار

رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ گزشتہ برس پاکستان میں 'بریت کے بڑے کیسز' بھی دیکھنے میں آئے۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ 'پاکستان کا معاشرہ باہمی یگانگت اور ہم آہنگی کے ساتھ کثیرالمذاہب اور مختلف الخیال افراد پر مشتمل ہے'۔

بیان میں زور دے کہا گیا کہ 'مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو آئین کی ضمانت حاصل ہے اور مختلف قانون سازی، پالیسی اور انتظامی اقدامات سے اس کو یقینی بنایا گیا ہے'۔

بھارت کی عدم شمولیت

دفتر خارجہ نے نشان دہی کی کہ رپورٹ میں بھارتی حکومت کے حالیہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور کہا کہ 'بھارت میں مسلمان اقلیت کے خلاف ریاستی سرپرستی میں منظم جرائم ہوتے ہیں' اور یہ چیزیں ریکارڈ میں لانے کے قابل ہیں۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ 'بھارت کو اس فہرست سے باہر رکھنا جہاں آر ایس ایس-بی جے پی حکومت اور ان کی قیادت کھلے عام مذہبی آزادی کی توہین کرتے ہیں اور ادارہ جاتی سطح پر اقلیتوں کے خلاف امتیار کرتے ہوں، بدقسمتی اور امریکی رپورٹ کی مصدقہ ہونے پر سوالات کھڑے کرتی ہے'۔

بیان میں کہا گیا کہ 'یہ کوئی راز نہیں ہے کہ مسلمانوں پر گاؤ رکشکوں کے حملے اور ہجوم کا تشدد ہوتا ہے اور ملزمان کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے'۔

بھارت کے حوالے سے مزید کہا گیا کہ 'بھارت منظم جرائم، ملکیت سے محروم کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز 'لو جہاد' جیسے نعرے کا استعمال کرتے ہوئے جرائم کے اقدامات اور ہندوتوا سوچ کی آماجگاہ ہے'۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے مذہبی آزادی سے متعلق امریکی الزامات مسترد کر دیے

دفتر خارجہ نے کہا کہ 'بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن کے نتائج اور تجاویز اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور مسلمان اکثریتی مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت ملک بھر میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے معاملے پر کانگریس کی سماعتوں کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے نظر انداز کر دیا ہے'۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر پاکستان کے مؤقف سے امریکا کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان 'مذہبی عدم برداشت اور امتیازی سلوک کے بڑھتے رجحان کی بیخ کنی اور اسلاموفوبیا کے لیے تعاون اور باہمی اعتماد کی بنیاد پر عالمی سطح پر کوششوں پر یقین رکھتا ہے' اور پاکستان اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا نے گزشتہ برس 11 دسمبر کو مبینہ طور پر اقلیتوں سے نامناسب رویے اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں پر پاکستان پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اسے 'بلیک لسٹ' ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مذہبی آزادی سے متعلق فہرست میں نام، پاکستان پابندی سے مستثنیٰ قرار

اس بلیک لسٹ میں جن ممالک کو شامل کیا جاتا ہے ان پر مختلف معاشی ودیگر پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں لیکن امریکا نے ان پابندیوں سے پاکستان سمیت چار ممالک کو مستثنیٰ قرار دیا تھا۔

امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ 'کانگریس کی مرتب کردہ سالانہ رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جن کے حوالے سے خصوصی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔'

بعدِ ازاں پاکستان نے امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے مذہبی آزادی کے حوالے سے یک طرفہ اور سیاسی مقاصد کے لیے ترتیب دی گئی رپورٹ کو مسترد کردیا تھا۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان مذہبی آزادی سے متعلق بیرونی اندازوں کو مسترد کرتا ہے، تعصب پر مبنی یہ غیر ضروری رپورٹ لکھنے والوں کی غیرجانبداری پر کئی سوالات اٹھاتی ہے‘۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان ایک کثیر المذہبی ملک ہے جہاں مختلف مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد مل جل کر رہتے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ ‘بھارت کا اس فہرست سے اخراج اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب داری اور فہرست کی معروضیت کو مزید واضح کر رہا ہے کیونکہ بھارت مذہبی آزادی کا سب سے بڑا خلاف ورزی کرنے والا ملک ہے’۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے مذہبی آزادی سے متعلق امریکی الزامات مسترد کر دیے

انہوں نے کہا تھا کہ ‘بھارت کے کشمیریوں کے ساتھ رویے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں طویل جبر اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر امریکا کی کانگریس نے دو سماعتیں کی ہیں اور 70 امریکی قانون سازوں نے کھلے عام گہری تشویش کا اظہار کیا تھا’۔

بھارت میں اقلیتوں پر جاری ظلم و ستم پر انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر، نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور کئی یورپی ممالک کی پارلیمنٹ نے بھی اسی طرح گہرے تشویش کا اظہار کرچکی ہیں’۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024