• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

سینیٹ کے انتخابات شو آف ہینڈز کے ذریعے کروانا چاہتے ہیں، شبلی فراز

شائع December 15, 2020 اپ ڈیٹ December 16, 2020
شبلی فراز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
شبلی فراز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے شو آف ہینڈز کے ذریعے سینیٹرز کا انتخاب کروانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے سپریم کورٹ سے رہنمائی لی جائے گی۔

اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات مارچ یا اس سے قبل ہوں گے، سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگتے ہیں اور بات طے ہو جاتی ہے کہ خرید و فروخت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کا الٹی میٹم مسترد، وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیں گے، وزیر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کی شفافیت کے لیے سپریم کورٹ نے مختصر حکم جاری کیا تھا، جس کی بنیاد پر ہم نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا تھا اور آج اس پر بحث ہوئی کہ کس طرح اس بل کو منظور کروا سکتے ہیں، آئینی ترمیم، ایگزیکٹو آرڈر یا الیکشن کمیشن کے ذریعے ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے طے کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رہنمائی لیں گے جس کے لیے ہمارا مدعا ہے کہ شو آف ہینڈز کے ذریعے انتخابات ہوں۔

شبلی فراز نے کہا کہ اس سے پہلے کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی حالانکہ حکومت کے پاس وسائل ہوتے ہیں اور سینیٹ کو متاثر کر سکتی ہے، لیکن کوئی حکومت اس طرح نہیں کرتی جس طرح ہم کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات شفاف اور مصدقہ ہوں تاکہ اس میں وہی لوگ آئیں جو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سے کافی پہلے سپریم کورٹ سے ہمیں رہنمائی ملے گی، اگر اسمبلی کا اجلاس ہوا تو وہاں سے منظور کروانے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہ سب جماعتوں کے مفاد میں ہے۔

پیٹرولیم رپورٹ پر کمیٹی قائم

شبلی فراز نے کہا کہ کووڈ-19 کے دوران آنے والے پیٹرولیم مصنوعات کے بحران سے متعلق پیٹرولیم کمیشن کی رپورٹ کابینہ میں پیش کی گئی اور وزیراعظم نے سفارشات کابینہ میں لانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے چیئرمین اسد عمر ہوں گے جبکہ شفقت محمود، ڈاکٹر شیریں مزاری اور اعظم سواتی اراکین ہیں جو اگلے ہفتے اجلاس میں سفارشات پیش کریں گے۔

'این ایف سی فنڈز کے استعمال کا میکنزم ہونا چاہیے'

اجلاس کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تناظر میں بات ہوئی جس میں وزارت خزانہ کی طرف سے بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ صوبوں کو آبادی کے تناسب سے دیے جانے والے پیسوں کے طریقہ کار کی خوبیوں اور خامیوں پر کابینہ اراکین نے بات کی اور یہ بات سامنے آئی کہ وفاق جو پیسے صوبوں کو دیتا ہے اور صوبہ جو فنڈ پیدا کرتا ہے اس میں کوئی بنیادی سقم ہے، جس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کے پاس ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے کہ اپنے سرمایے کو بڑھائے اور انہیں کوئی تحریک نہیں رہتی جبکہ اہم شعبے صوبوں کو دیے جاچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: استعفے ہمارے ایٹم بم ہیں، اس کے استعمال کی حکمت عملی مل کر اپنائیں گے، بلاول

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پنجاب کو این ایف سی ایوارڈ 2021 میں ایک اعشاریہ 441 کھرب روپے ملتے ہیں، جس میں ان کا اپنا سرمایے کا حصہ 306 ارب روپے کا ہے، سندھ کو 764 ارب روپے ملتے ہیں اور ان کا اپنا سرمایہ 314 کے قریب ہے، خیبر پختونخوا کو 602 ارب ملتے ہیں اور اپنا سرمایہ 50 ارب کے قریب ہے، اسی طرح بلوچستان کو 282 ارب روپے ملتے ہیں اور 51 ارب صوبائی سرمایہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کو یہ پیسے ملتے ہیں لیکن اس کا کوئی میکانزم نہیں ہے کہ کس طرح خرچ ہوں گے، ماضی کی حکومتوں یہاں تک کہ ہماری حکومت میں بھی ان پیسوں کے خرچ کا حساب نکال لیں تو بھی ایک طریقہ کار ہونا چاہیے، اٹھارویں ترمیم کے بعد ایسے مسائل سامنے آئے ہیں جن کو حل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ صوبائی حکومت کے پیسوں کا طریقہ کار اور کوئی احتساب بھی ہو۔

انہوں نے کہا کہ یہ اہم چیز ہے اس لیے جب خاص طور پر ہمارے وسائل کم ہوں اور پھر صوبائی حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں تو انہیں بھی جواب دہ ہونا چاہیے کہ انہوں نے کس مد میں پیسے خرچ کیے ہیں اور صوبائی بجٹ میں تعین ہونا چاہیے کہ کس جگہ اور کس مد میں پیسے لگائیں گے۔

شبلی فراز نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کریں لیکن جو سقم رہ گئے ہیں ان کا جائزہ لینے چاہیے، صوبائی خود مختاری سے متعلق جو چیزیں ہیں ان میں دیکھنا چاہیے کہ کن چیزوں پر ہمیں کام کرنا اور کن چیزوں کو بہتر کرنا ہے کیونکہ ملک میں کوئی وبا آتی ہے تو وفاق کو فنڈز دینے ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے وفاقی حکومت کے پاس زیادہ فنڈ نہیں بچتا اور پھر تنخواہیں اور اخراجات کے لیے ہمیں قرض لینا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے ریلیف فنڈ پر بھی بات ہوئی، جس میں اپریل 2020 میں قائم ہونے والا کووڈ فنڈ بھی شامل ہے، اس میں 4۔8 ارب عطیہ کیا گیا تھا، 3۔8 ارب مقامی ذرائع سے جمع کیے گئے اور ایک ارب کے قریب بین الاقوامی ڈونرز نے دیے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024