• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاست الگ ہو چکی ہے، وزیر داخلہ

شائع April 6, 2021
شیخ رشید احمد نے کہا کہ پی ڈی ایم اپنی موت خود مرے گی— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
شیخ رشید احمد نے کہا کہ پی ڈی ایم اپنی موت خود مرے گی— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست الگ ہو چکی ہے، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈیم ایم) اپنی موت خود مرے گی اور یہ دونوں جماعتیں الگ الگ گروپ بنائیں گی۔

واضح رہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں کئی دن سے جاری اختلافات اور عوامی نیشنل پارٹی کو جاری شوکاز کے نتیجے میں آج عوامی نیشنل پارٹی نے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: اے این پی کا پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرنے کا اعلان

اس حوالے سے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ پی ڈی ایم اپنی موت خود مرے گی، اب دو گروپ بنیں گے، مسلم لیگ (ن) کا اپنا گروپ ہو گا اور پیپلز پارٹی اپنا گروپ بنائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اصلہ مسئلہ یہ ہے کہ اب انہیں کرنا کیا ہے، استعفے انہوں دینے نہیں ہیں، پیپلزپارٹی کو تو چھوڑیں مسلم لیگ (ن) بھی استعفے نہیں دے گی۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کہا تھا کہ یہ الیکشن میں حصہ لیں گے، انہوں نے لیا، انہوں نے کہا تھا کہ ہم سینیٹ الیکشن میں حصہ لیں گے تو انہوں نے اس میں بھی حصہ لیا، انہوں نے کہا تھا کہ بائیکاٹ نہیں کریں گے تو نہیں کیا، انہوں نے کہا تھا کہ استعفیٰ نہیں دیں گے تو وہ بھی نہیں دیے، اب آخر ان کے پاس رہ ہی کیا گیا ہے۔

وزیر داخلہ نے مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کی صحتیابی کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ طے ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاست الگ ہو چکی ہے اور یہ عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی، اے این پی کو نوٹس قانونی چارہ جوئی نہیں ہے، شاہد خاقان عباسی

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے 10 رکنی سیاسی کمیٹی بنائی ہوئی ہے اور اس میں آج علی ظفر کو بھی الیکشن اصلاحات کا کہا ہو گا لیکن کیا اپوزیشن ایسی بات سننے کے لیے تیار ہے، یہ فیصلہ اپوزیشن کو ہی کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈھائی سال کے بعد عمران خان نے مختلف طرز عمل کی سیاست شروع کی ہے کہ ہم اپوزیشن سے بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن اپوزیشن کس حد تک تیار ہوتی ہے، یہ آنے والے دنوں میں رمضان کے بعد پتا چل جائے گا کہ وہ کیا سیاست کرتے ہیں اور کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

زرداری کی نواز شریف کی واپسی سے متعلق بات نامناسب تھی، محمد زبیر

مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ اپوزیشن آپس میں لڑے اور جہاں تک ممکن ہوا ہم نے گزشتہ پانچ چھ مہینے میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی بہت سی چیزیں تسلیم کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے جو نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے بات کی تھی وہ اتنی حساس بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کسی بھی ورکر کے لیے یہ چیز بہت نامناسب تھی اور اگر پیپلز پارٹی استعفے نہ دینے کی کوئی وجہ بتاتی تو اس پر بات ہو سکتی تھی لیکن یہ بہت بڑی بات تھی۔

مزید پڑھیں: 'باپ' سے ووٹ لینے کا معاملہ: پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی،اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کردیے

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اپوزیشن لیڈر کا معاملہ انتہائی اہم تھا لیکن ہمیں اعتماد میں لیے بغیر یوسف رضا گیلانی اپوزیشن لیڈر بن گئے جبکہ ایک اصول طے ہو چکا تھا کہ سینیٹ میں یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے پاس جائے گی۔

جھکنے اور بکنے کا بھی کوئی طریقہ ہوتا ہے، عبدالغفور حیدری

علاوہ ازیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینئر رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے نجی ٹی وی بات کرتے ہوئے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی نے مولانا فضل الرحمٰن پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے صحیح طریقے سے قیادت نہیں کی اور پی ڈی ایم کو چلانے کے لیے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا تو ان کی نظر میں یہ بات صحیح ہو گی، مگر جس طرح سے اے این پی اور پیپلز پارٹی نے حکومت سے تعاون حاصل کیا، میرے خیال میں تاریخ میں سیاسی طور پر ایسا رسوا کن عمل کبھی نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ جھکنے اور بکنے کا بھی کوئی طریقہ ہوتا ہے لیکن جس طرح کا انہوں نے کردار ادا کیا اس سے بہت جگ ہنسائی ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم عوامی نیشنل پارٹی کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا کیونکہ سیاسی طور پر اس طرح کا اقدام موت کے مترادف ہوتا ہے تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے دوستی میں یہ قدم اٹھایا جبکہ امیر حیدر خان ہوتی نے خود فرمایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے غلط کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: (ن) لیگ سمیت اپوزیشن کی 5 جماعتوں کا سینیٹ میں الگ بلاک بنانے کا فیصلہ

جے یو آئی (ف) کے رہنما نے کہا کہ یاری دوستی اپنی جگہ پر ہوتی ہے لیکن اصول اپنی جگہ ہوتے ہیں اور انہی اصولوں پر چل کر کسی پارٹی کا کردار نمایاں ہوتا ہے تو ظاہر ہے ایسے حالات میں شوکاز نوٹس تو آنا تھا جو کوئی بُری بات نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی انتخابی اتحاد نہیں تھا بلکہ ایک جدوجہد اور تحریک تھی، تحریکوں کا حصہ وہ لوگ بنتے ہیں جو تمام دباؤ کو برداشت اور مشکلات کو عبور کر کے کشتیاں جلا کر چلتے ہیں تو اگر یہ جماعتیں دباؤ برداشت نہیں کرتیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔

مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ میرے خیال میں عوامی نیشنل پارٹی نے فاش غلطی کی اور الٹا مولانا فضل الرحمٰن پر الزام لگا رہے ہیں جو مناسب نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری نظر میں تمام جماعتیں محترم اور ان کی اپنی اپنی حیثیت ہے لیکن اپنی غلطی کو اس طرح چھپانا درست نہیں ہے۔

'باپ' کی مدد سے اپوزیشن لیڈر بنانا اے پی سی چارٹر کی نفی تھی، مریم اورنگزیب

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ مجھے عوامی نیشنل پارٹی کا اعلان سن کر بہت افسوس ہوا کیونکہ اس جماعت کی جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے کی طویل تاریخ ہے اور انہوں نے آئین، پارلیمان اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم ایک بڑے مقصد کے لیے ہے اور جب بلوچستان عوامی پارٹی اور حکومتی اراکین کی مدد سے اپوزیشن لیڈر بنایا گیا تو وہ 30 ستمبر کی اے پی سی کے چارٹر کی نفی کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے چھوٹے سے عہدے کیلئے 'باپ' سے ووٹ لے لیے، مریم نواز

انہوں نے کہا کہ یہ مسلم لیگ (ن) اور اے این پی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مولانا فضل الرحمٰن کی ہدایت پر شاہد خاقان عباسی نے وہ خط لکھا تھا اور وضاحت طلب کی تھی کہ کیا دباؤ اور وجوہات تھیں، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے 'باپ' سے ووٹ لیا اور یہ بات پی ڈی ایم میں کیوں نہیں لے کر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کا اپوزیشن لیڈر ایک چھوٹا عہدہ ہے اور اگر پیپلز پارٹی سینیٹ چیئرمین الیکشن میں شکست کے بعد آ کر کہتی کہ ہم یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنانا چاہتے ہیں تو نواز شریف انکار نہیں کرتے کیونکہ ان کا مقصد سیاسی نہیں ہے بلکہ وہ جدوجہد ہے جو خاص عناصر کے خلاف کی جا رہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024