• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

نیب میں افسران بڑے بڑے فراڈ کر رہے ہیں، سپریم کورٹ کا احتساب ادارے پر اظہار برہمی

شائع May 4, 2021
چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے نیب اپیل ‏پرسماعت کی—فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے نیب اپیل ‏پرسماعت کی—فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ایک مرتبہ پھر قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

سپریم کورٹ میں نیب افسران اسسٹنٹ ‏ڈائریکٹر فاخر شیخ اور ترویش کی جانب سے ملزمان سے ایک کروڑ رشوت لینے پر سندھ ہائی کورٹ کے دوبارہ انکوائری کے حکم کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت ہوئی۔

مزید پڑھیں: نیب کے افسران میں صلاحیت نہیں، سپریم کورٹ کا احتساب ادارے پر اظہار برہمی

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نیب اپیل ‏پر سماعت کی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ نیب میں موجود افسران بڑے بڑے فراڈ کررہے ہیں اور چیئرمین نیب خاموش ‏ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ نیب افسران کو ادارہ چلانا ہی نہیں ‏آتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب کا ادارہ کیا کررہا ہے صرف تماشا بنایا ہوا ‏ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ چیئرمین نیب تو سپریم کورٹ کے سابق ‏جج رہے ہیں، وہ ‏بغیر انکوائری کسی ملازم کو کیسے فارغ کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا احتساب عدالتوں کو روزانہ کی بنیاد پر کرپشن مقدمات کی سماعت کا حکم

ڈپٹی پراسیکوٹر ‏نیب عمران الحق نے مؤقف اختیار کیا کہ اسسٹنٹ ‏ڈائریکٹر فاخر شیخ اور ترویش کے ‏خلاف انکوائری کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 3 ماہ میں دوبارہ انکوائری مکمل کرنے ‏کا حکم دیا تھا۔

دوران سماعت ‏چیف جسٹس گلزار احمد ڈپٹی پراسیکویٹر نیب عمران الحق پر برہم ہوئے اور ریمارکس دیے کہ 2018 سے معاملہ چل رہا ہے ابھی تک انکوائری ہی مکمل نہیں کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب ‏ایسے لوگوں کو تنخواہ اور غلط کام کرنے کا موقع بھی دیتا ہے جبکہ نیب افسران کو ادارہ ‏چلانا ہی نہیں آتا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ نیب نے 3 ماہ کے کام کے لیے 3 سال لگا دیے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریماکس دیے کہ اس ‏کیس میں 3 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک نیب نے کچھ نہیں کیا کیونکہ جان بوجھ کر نیب ‏کے ‏لوگوں نے گھپلا کیا تاکہ کیس خراب ہوجائے۔

بعدازاں عدالتی آبزرویشنز کے بعد نیب نے ‏اپنے طور پر انکوائری مکمل کرنے کے لیے کیس واپس ‏لے لیا۔

مزید پڑھیں: کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے، سپریم کورٹ

گزشتہ برس جولائی میں سپریم کورٹ نے نیب پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ نیب کا دفتر خود کرپشن ریفرنسز کے فیصلے میں تاخیر کا ذمہ دار ہے کیونکہ اس کے افسران میں صلاحیت نہیں ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا تھا کہ نیب افسران مناسب انکوائری/تحقیقات کرنے کے لیے متعلقہ مہارت نہیں رکھتے اور ایسا لگتا ہے کہ انکوائری/تحقیقات کی جانچ پڑتال کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ریمارکس نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی جانب سے سپریم کورٹ کے روبرو احتساب عدالتوں میں کرپشن ریفرنسز کے فیصلے میں تاخیر سے متعلق متعدد وجوہات پیش کرنے کے موقع پر دیے گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024