• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

مالی سال 22-2021 کا وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا

شائع June 11, 2021
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان کے تمام معاشی اشارے مثبت ہیں—فوٹو: اے ایف پی
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان کے تمام معاشی اشارے مثبت ہیں—فوٹو: اے ایف پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت آج قومی اسمبلی میں مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ شوکت ترین بجٹ پیش کریں گے جبکہ اجلاس شام 4 بجے شروع ہوگا۔

مزید پڑھیں: بجٹ 21-2020: حکومت نے کراچی کے 3 ہسپتالوں کیلئے 14 ارب روپے مختص کردیے

خیال رہے کہ آج پیش کیا جانے والا بجٹ موجودہ حکومت کا تیسرا وفاقی بجٹ ہوگا۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس آج اسلام آباد میں ہوگا جس میں بجٹ کی تجاویز پر تبادلہ خیال اور منظوری دی جائے گی اور اس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان کریں گے۔

اس حوالے سے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پاکستان کے تمام معاشی اشارے مثبت ہیں۔

انہوں نے پیشگوئی کہ ملک ایک طویل عرصے کے بعد معاشی استحکام کی طرف گامزن ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ملک کے عوام اور اداروں کو وزیر اعظم عمران خان پر مکمل اعتماد ہے جن کی بدولت معاشی اور سیاسی استحکام ممکن ہوسکا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن نے بجٹ ’عوام دشمن‘ قرار دے کر مسترد کردیا

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اختلاف کو چاہیے کہ اپوزیشن احتساب کو اصلاحات سے علیحدہ دیکھے اور انتخابی اور عدالتی اصلاحات پر بات چیت ہو۔

دوسری جانب اپوزیشن کا کہنا تھا کہ وہ، عوام دشمن بجٹ کی اجازت نہیں دے گی اور اس کی منظوری کو روکنے کے لیے سب کچھ کرے گی۔

گزشتہ ماہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر تمام مرکزی دھارے میں شامل اپوزیشن جماعتوں کے عشائیہ کے استقبال کی میزبانی کی تھی۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان موجودہ اختلافات کے باوجود پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پارٹی بجٹ پر شہباز شریف کی حمایت کرے گی۔

مزید پڑھیں: دفاعی بجٹ کیلئے 12 کھرب 90 ارب روپے کی تجویز

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ بجٹ کے دن پیپلز پارٹی کے ممبران آکر ووٹ ڈالیں گے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ شہباز شریف پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے یہ بات منحصر ہے کہ وہ اپنا کام انجام دیں اور حکومت کے بجٹ کو روکیں۔

گزشتہ ہفتے منعقدہ ایک پری بجٹ سیمینار میں مسلم لیگ (ن) نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کی ’ناکام مالی پالیسیوں‘ کی وجہ سے ملک میں معاشی حالت کی ایک مایوس کن تصویر پیش کی تھی۔

سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے پاکستان کو معاشی ’مشکلات‘ سے نکالنے کے لیے معاشی پالیسی کا سنجیدہ جائزہ لینے کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔

معیشت کے استحکام کے بجائے نمو پر توجہ

واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے مالی سال 21-2020 کا قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب معیشت کے استحکام کے بجائے نمو پر توجہ دینی ہے۔

شوکت ترین نے بتایا تھا کہ جب کووِڈ 19 شروع ہوا اس وقت تقریباً 5 کروڑ 60 لاکھ افراد برسرِ روزگار تھے جن کی تعداد کم ہو کر 3 کروڑ 50 لاکھ پر آگئی یعنی 2 کروڑ لوگ بے روزگار ہوگئے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ بجٹ میں حکومت کا اپنا اندازہ 2.1 فیصد شرح نمو کا تھا جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا تخمینہ تو اس سے بھی کم تھا لیکن حکومت نے جو فیصلے لیے، جن میں مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، زراعت اور تعمیراتی شعبے کو گیس، بجلی اور دیگر مد میں مراعات دی گئیں اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ نے مثبت نمو کا مظاہرہ کیا جو تقریباً 9 فیصد تھی۔

سروے کے مطابق پاکستان میں مالی سال 21-2020 میں عبوری شرح نمو 3.94 فیصد رہی، جو مجموعی طور پر تمام شعبوں میں ریباؤنڈ کی بنیاد پر حاصل ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ زراعت نے 2.77 فیصد نمو کی حالانکہ کپاس خراب ہونے کی وجہ سے ہمیں نمو منفی ہونے کا اندیشہ تھا لیکن باقی 4 فصلوں، گندم، چاول، گنا اور مکئی نے بہتر کارکردگی دکھائی۔

صنعتی شعبے میں 3.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ خدمات میں 4.4 فیصد اضافہ ہوا حالانکہ اس کا ہدف 2.6 فیصد تھا۔

شوکت ترین نے کہا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) میں 9 فیصد اضافہ ہوا، جس سے مجموعی طور پر شرح نمو میں اضافے میں مدد ملی۔

انہوں نے کہا کہ ترسیلات زرِ نے ریکارڈ قائم کردیا اور اس وقت ترسیلات زر 26 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہیں اور ہمارے اندازے کے مطابق 29 ارب ڈالر تک جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس کلیکشن بھی بہت بہتر ہے اور 11 ماہ کے دوران ہم 42 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 18 فیصد سے زائد ہے حالانکہ مالی سال کے آغاز میں کسی کو اتنا بہتر ہونے کا اندازہ نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مارچ کے بعد سے ماہانہ بنیاد پر ٹیکس کلیکشن کی نمو 50 سے 60 فیصد زیادہ ہے اس لیے ہمارا اندازہ ہے کہ ہم 47 کھرب روپے کے تخمینے سے بھی آگے نکل جائیں گے۔

سروے کے مطابق مالی سال 2021 کے دوران جب دنیا کو کووڈ کے باعث معاشی مشکلات کا سامنا تھا تو پاکستان کی بیرونی ترسیلات زر نے مزاحمت دکھائی۔

انہوں نے کہا کہ جولائی سے مارچ میں مالی سال 2021 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ 95 کروڑ 90 لاکھ ڈالر (جی ڈی پی کا 0.5 فیصد) سرپلس تھا جس کے مقابلے میں گزشتہ برس خسارہ 4 ہزار 141 ملین ڈالر تھا جو جی ڈی پی کا 2.1 فیصد تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ کے توازن میں بہتری کے لیے بنیادی کردار بیرونی ترسیلات میں بے پناہ اضافہ تھا۔

سروے میں کہا گیا کہ مالی سال 2021 میں جولائی سے مارچ کے دوران مصنوعات کی برآمدات میں 2.3 فیصد سے 18.7 ارب ڈالر اضافہ ہوا جو ایک سال قبل اسی دوران 18.3 ارب ڈالر تھیں۔

مصنوعات کی درآمدات 9.4 فیصد 37.4 ارب ڈالر اضافہ ہوا جو گزشتہ برس 34.2 فیصد تھی، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ 17.7 فیصد 18.7 ارب ڈالر تھا جبکہ ایک سال قبل 15.9 ارب ڈالر تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی کی بات ہوتی ہے لیکن ہم خالصتاً اشیائے خورونوش درآمد کرنے والا ملک بن گئے ہیں ہم گندم، چینی، دالیں، گھی درآمد کررہے ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہیں اس سے بچ نہیں سکتے۔

وزیر خزانہ کے مطابق گزشتہ 12 ماہ کے دوران چینی کی عالمی قیمتیں 58 فیصد بڑھیں جبکہ ہمارے ہاں چینی کی قیمت 19 فیصد بڑھی، پام آئل کی قیمت میں 102 فیصد، سویابین کی قیمت میں 119 فیصد ہوا جبکہ ہمارے ہاں پام آئل کی قیمت میں صرف 20 فیصد اضافہ ہوا۔

شوکت ترین نے کہا کہ مارچ کے اختتام تک ہمارا مجموعی قرض 380 کھرب روپے تھا جس میں سے ڈھائی سو کھرب مقامی قرض جبکہ تقریباً 120 کھرب غیر ملکی قرض ہے جس میں گزشتہ برس کے مقابلے صرف تقریباً 17 کھرب روپے کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اس سے پہلے والے سال میں یہ اضافہ 36 کھرب روپے تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس دفعہ قرضوں میں اضافہ گزشتہ برس کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے، گزشتہ برس کے مقابلے میں غیر ملکی قرض 7 کھرب روپے کم ہے اور یہ جون 2020 میں 131 کھرب روپے تھا جو 125 کھرب روپے پر آگیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ احساس پروگرام کو ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ایک کروڑ 50 لاکھ گھرانوں تک پہنچایا اور اس میں ایمرجنسی کیش اور دیگر مراعات دی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح وزیراعظم نے کامیاب جواب پروگرام کا اجرا کیا جس سے ساڑھے 8 سے 9 ہزار افراد مستفید ہوچکے ہیں، بلین ٹری سونامی کے تحت ایک ارب درخت لگائے جاچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ریٹنگ اداروں موڈیز، فچ وغیرہ نے ہماری کریڈٹ ریٹنگ بہتر کی یہ اس بات کی سند ہے کہ ہمارا استحکام کا پروگرام کامیاب ہوا اور اب ہمیں پائیدار معاشی نمو کی جانب جانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کب تک ہم معیشت مستحکم کرنے میں لگے رہیں گے معیشت کا پہیہ تیز چلا کر جب شرح نمو 7 سے 8 فیصد پر لے جائیں گے اسی وقت نوجوان نسل کو درکار روزگار فراہم کرسکیں گے۔

شوکت ترین نے بتایا کہ اس مرتبہ بجٹ میں سب سے بڑی چیز یہ ہوگی کہ ہم نے غریب کا خیال رکھنا ہے، استحکام کے دوران اور 74 سال سے غریب پس رہا ہے جسے ہم خواب دکھاتے رہے ہیں کہ اوپر سے معیشت ترقی کرے گی تو اس کے اثرات نیچے آئیں گے حالانکہ یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب نمو پائیدار اور 20 سے 30 سال تک مسلسل ہو جیسے چین، بھارت اور ترکی میں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024