افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہوگا، وزیر اعظم
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہوگا جبکہ افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر ایسی پالیسی تشکیل دے رہے ہیں کہ افغان حکومت کو کیا کرنا چاہیے کہ ہم سب ان کی حکومت کو تسلیم کر لیں۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اے پی پی' کے مطابق دوشنبے میں آر ٹی (عربی) چینل کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ ‘افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے جو یا تو 40 سال کی جنگی صورتحال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا یا پھر یہاں سے غلط سمت میں چلا گیا تو اس سے افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے جو ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس سے تمام ہمسایہ ممالک متاثر ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہ اجلاس اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ اس میں افغانستان کے تقریباً تمام ہمسایہ ملک شریک ہیں، پورے خطے کے لیے اس وقت افغانستان سب سے اہم موضوع ہے۔
'افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ ہے'
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے نکتہِ نظر سے افغان سرزمین سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے سے ہی تین دہشت گرد گروہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کراتے رہے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے طالبان کی مدد کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ اگر تصور کر لیا جائے کہ پاکستان نے طالبان کی امریکا کے خلاف مدد کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان، امریکا اور تمام یورپی ممالک سے طاقتور ہے اور یہ کہ پاکستان، ایک ہلکے ہتھیاروں سے لیس ملیشیا کے ساتھ جس کی تعداد 70 ہزار ہے، وہ بہترین ہتھیاروں سے لیس 3 لاکھ فوجیوں پر مشتمل فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کو اپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں، وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بدقسمتی سے ہمارے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے اپنی نااہلی، کرپشن اور افغانستان میں مؤثر گورننس نہ کر سکنے کی صلاحیت سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ پروپیگنڈا شروع کیا گیا، اس حکومت کو افغانیوں کی اکثریت کٹھ پتلی حکومت سمجھتی رہی ہے کیونکہ اس حکومت کی افغانیوں کی نظر میں کوئی عزت نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پروپیگنڈے کا دوسرا کردار بھارت ہے جس نے اشرف غنی کی افغان حکومت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔
'کیا پاکستان نے افغان فورسز کو لڑنے سے منع کیا تھا؟'
عمران خان نے کہا کہ یہ پروپیگنڈا ان کی جانب سے جاری ہے مگر اس کی کوئی منطق نہیں ہے، پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے لیے ملک کا کُل بجٹ 50 ارب ڈالر ہے، ہماراملک کیسے اس مدافعتی جنگ میں مدد فراہم کر سکتا تھا جو امریکا پر حاوی ہو گئی اور جس میں امریکا نے 20 سالوں میں 2 ہزار ارب ڈالر سے زائد جھونک دیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ محض پروپیگنڈا ہے کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ 3 لاکھ افغانی فوج نے لڑائی ہی نہیں کی، کیا پاکستان نے انہیں لڑنے سے منع کیا تھا؟
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ یہ وجوہات جاننا چاہتے ہیں کہ کیوں بیس سال بعد طالبان فتحیاب ہوئے اور امریکا کو شکست ہو گئی تو اس کے لیے آپ کو ایک تفصیلی تجزیہ کرنا ہوگا کہ کیوں دنیا کی بہادر ترین اقوام میں سے ایک قوم یعنی افغانوں کی فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری کا حصہ ہے، افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہو گا، ہم افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، ہم ایک ایسی پالیسی تشکیل دے رہے ہیں کہ افغان حکومت کو کیا کرنا چاہیے کہ ہم سب ان کی حکومت کو تسلیم کر لیں۔
مزید پڑھیں: امریکا نے افغانستان میں صورتحال بہت خراب کردی ہے، عمران خان
'افغانستان میں ایک شمولیتی حکومت ہونی چاہیے'
انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت قائم ہو کیونکہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت زیادہ تنوع ہے، وہاں پشتون، ازبک اور ہزارہ جیسی قومیں آباد ہیں، افغانستان کے مفاد اور افغانستان میں طویل المدت استحکام کے لیے ہم سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہاں ایک شمولیتی حکومت ہونی چاہیے جو افغانستان کو متحد کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے یہ مؤقف رکھتے ہیں اور اسی پر افغانستان کے تمام ہمسایوں کے ساتھ بات کرکے کوئی پالیسی تشکیل دیں گے۔
افغانستان میں اقلیتی گروہوں کو نمائندگی دینے کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ طالبان نے ایک ایسی زبردست جدوجہد کی جیسی کہ شاید ہی کسی نے کی ہو، کیونکہ بیس سال تک انہوں نے انسانی تاریخ کے مہلک ترین جنگی اسلحے کا مقابلہ کیا ہے۔
'سعودی عرب، ایران کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں'
پاکستان کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ جتنا مہذب تعلق ہوگا وہ تجارت اور پورے خطے کے مفاد میں ہوگا، سعودی عرب پاکستان کا قریب ترین اتحادی اور ایک ایسا دوست رہا ہے جس نے ہمیشہ ہر ضرورت کی گھڑی میں ہماری مدد کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روسی صدر کا وزیراعظم عمران خان کو فون، افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال
انہوں نے کہا کہ اس لیے ہماری دلچسپی کا محور یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان باہمی مفاہمت ہو، ان دونوں ممالک کے درمیان تنازع نہ صرف پاکستان بلکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی ایک تباہ کن امر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کسی بھی تنازع کا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑے گا کیونکہ پہلے ہی کورونا وبا اور سپلائی کی کمی کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور مہنگائی، ترقی پذیر ممالک کو بُری طرح متاثر کر رہی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا غربت پر بہت برا اثر پڑا ہے، اگر ان دونوں ممالک میں کوئی تصادم ہوتا ہے تو اس کا فوری اثر تیل کی قیمتوں پر پڑے گا جو دنیا بھر کے غریب افراد کے لیے تباہ کن ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ ہر کسی کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ان دو ملکوں کے درمیان زیادہ بہتر تعلقات ہوں۔