وزیراعظم کے معاون خصوصی کا صحافی سے کالم کے حوالے سے ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے معروف صحافی عاصمہ شیرازی کے مضمون کو ‘تضحیک آمیز اور گالم گلوچ’ سے تعبیر کرتے ہوئے ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کردیا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا کہ ‘ہمارے ہاں سیاست کے نام پر بداخلاقی ہورہی ہے، چند بیمار سیاسی اور صحافتی ذہنیت مل کر اس ملک کی اخلاقی گراؤٹ کی طر ف جا رہی ہیں'۔
مزید پڑھیں: ’ذاتی حملے کرنا شرمناک ہے‘، شیریں مزاری اور ان کی بیٹی ٹوئٹر پر آمنے سامنے
انہوں نے کہا کہ ‘پچھلے تین چار مہینوں سے مسلسل ایک مہم شروع کرنے کی کوشش کی گئی، سب سے پہلے لندن سے نواز شریف پھر اس کے بھائی شہباز شریف اور اس کے بعد مریم نواز نے بہت دفعہ یہ بات کی اور اس کے بعد مریم نواز کے قریب لوگ جو ان سے دن رات رابطے میں ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک محترمہ ہیں وہ بڑے آرٹیکل لکھتی ہیں، ان کی مریم نواز سے ایک دن میں 53 مرتبہ بات ہوتی ہے، یہ ایک اخلاقی گراؤٹ کا معاملہ ہے اس پر بات کرنا ضروری ہے’۔
شہباز گل نے کہا کہ ‘اس معاملے کو نظر انداز کیا گیا اس لیے اس پر بات کرتے ہوئے اچھا نہیں لگتا کیونکہ یہ اتنی گری ہوئی باتیں ہیں اور خاتون اول پر بار بار حملہ کیا جاتا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آپ کو عمران خان اچھے لگتے ہیں برے لگتے ہیں، ان پر سیاست کیجیے، عمران خان کا خاندان اچھا یا برا لگتا ہے، آپ دل میں بغض رکھیے لیکن معاشرے کی کچھ اخلاقیات ہیں، مثلاً شہباز شریف کی بیٹیاں ہیں وہ میری بہنیں ہیں، مجھے ان کے نام تک نہیں یاد، مجھے نہیں پتا کوئی میلاد شریف پر جاتی ہیں یا مزار پر جاتی ہیں، نواز شریف کی مریم نواز کے علاوہ بھی ایک بیٹی ہے، مجھے ان کے نام کا بھی نہیں پتا، وہ ہمارے لیے احترام کی جگہ پر ہیں اور ہم کبھی ان کے بارے میں بات نہیں کرتے'۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘محترمہ کلثوم نواز صاحبہ نے سیاست میں بھی حصہ لیا، اس کے باوجود کوئی ایک بیان ایک ذات یا کردار پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے کوئی بیان دیاگیا؟’
’خاتون اول پہلے قوم کی بیٹی ہیں’
معاون خصوصی نے کہا کہ ‘جب خاتون اول کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ عمران خان کی بیوی ہونے سے پہلے اس قوم کی بیٹی ہیں، اس کے بعد یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ وہ ایک ماں ہے، اس کے بچے ہیں اور بچوں کے بھی بچے ہیں، جب آپ ان پر تنقید کرتے ہیں ان کے بچوں، نواسے نواسیوں پر کیا گزرتی ہوگی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ماں، بیٹی کی عزت کرنا ہمارے کلچر کا حصہ ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ خاتون اول بشریٰ بی بی سب سے پہلے پاکستان کی بیٹی ہیں، اس کے بعد وہ ایک ماں ہیں، اس کے بعد وہ ایک بیوی ہیں’۔
’عاصمہ شیرازی کو ثبوت دینے ہوں گے’
معروف خاتون صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے شہباز گل نے کہا کہ ‘اگر عاصمہ شیرازی صاحبہ جو الزامات آپ لگاتی ہیں اس میں کسی کے ملوث ہونے کے ثبوت ہیں تو خبر کرنے کے لیے آپ کا پورا حق ہے لیکن خدارا آپ اپنی خواہشات کے گھوڑوں پر چیزیں بٹھا کر خبر کردیتی ہیں اور بی بی سی جیسا اعلیٰ ادارہ آپ کو یہ خبر کرنے دیتا ہے، ان کا ایڈیٹوریل بورڈ سویا ہوا تھا’۔
یہ بھی پڑھیں:’چوراہوں پر فوج کو ڈسکس کریں گے تو سیاست میں آپ کے ساتھ دھوبی گھاٹ والا سلوک ہوگا‘
انہوں نے کہا کہ ‘وہ ایک خاتون کی تحقیر کر رہی ہیں، آپ اسے گالی دے رہے ہیں، کیا ہمارے پاس خواتین کو گالی دینے کا رواج آچکا ہے، جو گھر میں بیٹھی ہوئی ہیں، جن کا سیاست کوئی لینا دینا نہیں ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بی بی سی نے آرٹیکل کیسے شائع کیا سمجھ نہیں آتی لیکن یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کچھ اس دن ہوتا ہے، جس دن آقا دو جہاں ﷺ کے عشق میں سب جھوم رہے ہوتے ہیں، جس دن وزیراعظم اور ان کا اہل خانہ پورے خشوع اور خضوع کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کر رہے ہوتے ہیں اور ان دنوں کے دوران بیرونی میڈیا کے اوپر یہ مغلظات لکھے جاتے ہیں’۔
شہباز گل نے کہا کہ ‘میں عاصمہ شیرازی کو دوبارہ دعوت دیتا ہوں کہ آپ ٹی وی پر شو کریں اور مضمون لکھیں لیکن اب آپ کو ثبوت دینا پڑے گا، بکرے کٹے، جادو ٹونہ پتا نہیں کیا کچھ لکھتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آپ کے پاس کسی کے بارے ثبوت ہیں تو اسٹوری کرنے کا پورا حق ہے، آپ کل کو کچھ اور کہہ دیں گے، آپ کسی کے بارے میں کہیں گے کہ فلاں گھر میں بیٹھا یورینیم بنارہا ہے، ایٹم بنا رہا ہے، فلاں نے جن رکھے ہوئے ہیں اور فلاں نے چڑیلیں رکھی ہیں، اس کا مطلب ہے آپ جو بات ہوائی آئے اس کو لکھ دیتی ہیں’۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ ‘پہلی بات تو یہ ہے کہ اس پس منظر کو دیکھنا پڑے گا کہ آپ کا مضمون ایسے وقت میں لکھا جاتا ہے جب 12 ربیع الاول ہے اور وزیراعظم اور ان کا خاندان اس دن کو منارہا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘دوسری بات اگر کوئی ثبوت ہے تو دکھایئے، تیسری بات یہ ہے کہ وزیراعظم مٹھائی کے ڈبے دے کر، کسی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر وزیراعظم نہیں بنے، گلی گلی، کریہ کریہ محنت اور عوام کے ووٹ سے وہ شخص وزیراعظم بنا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘وزیراعظم جو بھی فیصلہ کرتے ہیں، اس پر عین کا لفظ ڈھونڈا جاتا ہے، کبھی ف کا لفظ ڈھونڈا جاتا ہے؟ ایک شخص آزاد کشمیر کے اندر سکہ بند سیاست دان ہے، پہلے مرتبہ سیاست نہیں کر رہا ہے، شریف آدمی ہے، وہ وزیراعظم بنا تو ملک کے تین بڑے اخبارات نے کیا کچھ نہیں لکھا، میں حیران ہوں ان کے ایڈیٹر کہاں سوئے ہوتے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘صحافت اس وقت کیا چھٹی پر ہوتی ہے، صحافت اس وقت کیوں سوئی ہوتی ہے جب دوسروں کی ماؤں بہنوں کو گالیاں دی جاتی ہیں، اس کے بعد آئی اسٹینڈ ود عاصمہ شیرازی، پہلے پتا کرو وہ کہاں کھڑی ہیں، کیا آپ سب گالیاں دینے کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ کون سی صحافت ہے’۔
’لوگوں کا ردعمل آئے گا’
انہوں نے کہا کہ ‘جب آپ وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو گالیاں دیں گے تو لوگ ردعمل دیں گے اور پھر آپ اس کا لبادہ لے کر کہیں گے آئی اسٹینڈ، گالیاں کیوں لکھتے ہیں، کیا سب ختم ہوگیا، آپ کے پاس اتنی صحافت تھی’۔
شہباز گل نے کہا کہ ‘جب 3 سال میں وزیراعظم کا کوئی اسکینڈل نہیں ملا تو جادو ٹونا، جن، چڑیلیں، سوئیاں اور ایک کو تو وزیراعظم کے گھر سے 3،4 کلومیٹر دور درختوں پر لال کپڑے بندھے نظر آگئے، اس کو میں کیا جواب دوں، یہ مضحکہ خیز باتیں ہیں اور گالیاں دینے کے مترادف ہے، خود پر اور اپنی پرورش پر رحم کریں’۔
مزید پڑھیں: ملک میں وزیراعظم کی جگہ اہم ترین تقرریاں جنات کرتے ہیں، مریم نواز
انہوں نے کہا کہ ‘وزیراعظم جو بھی فیصلہ کرتے ہیں چاہے وہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پنجاب کا فیصلہ ہے، اسلام سے عین کہاں سے باہر نکالوگے، جو لگتا ہے وہ عین سے آیا اور جو عین کہیں نہ ملے تو گلے میں ف پھنس جاتا ہے، اصل بات یہ ہے کہ آپ کے گلے میں عمران خان پھنسا ہوا ہے اور اردو کے سارے ہجے آپ کے گلے میں پھنسیں گے اور مزید بہت کچھ آپ کے گلے میں پھنسے گا’۔
'ایف بی آر ایک محترمہ کو دوبارہ نوٹس بھیجے’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک محترمہ کو ایف بی آر کا نوٹس آیا تھا لیکن آپ نے دوسرے گھر جاکر اس نوٹس کو واپس بھجوادیا تھا، ایف بی آر سے کہتا ہوں کہ دوبارہ نوٹس بھیجیں اور محترمہ سے پوچھیں کہ ایف 8 میں اتنا بڑا گھر کہاں سے آیا، سی ڈی اے میں اپنے بھائی صاحب کی نوکری کا جواب بھی دیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں پتا ہے کہ یہ ایک مہم ہے وزیراعظم عمران خان کے ہر فیصلے پر تنقید کرنے اور عوام کو کنفیوژ کرنے کے لیے، یہ بتانے کے لیے کہ یہ فیصلے کسی منطق پر نہیں کرتے، یہ فیصلے تو کسی علم نجوم کے سلسلے میں ہوتے ہیں، کوئی طوطے رکھے ہوئے ہیں جو فال نکالتے ہیں، بکرے کٹتے ہیں، کوئی سوئیاں چبھوئی جاتی ہیں تاکہ پوری نظام پر عوام کا جو اعتماد ہے اس کو نقصان پہنچائیں’۔
’گالی گلوچ نہ کریں، یہ برداشت نہیں کیا جائے گا’
ان کا کہنا تھا کہ ‘مظہر عباس اور فہد حسین جیسے درمیان میں کھڑے لوگوں اور دوسرے تمام صحافیوں سے گزارش کر رہا ہوں، دھمکی نہیں دے رہا کہ اس گالی گلوچ کے ساتھ برائے مہربانی مت کھڑے ہوں، اگر یہ شروع کیا گھر میں بیٹھی کسی کی بہن، بیٹی اور بیوی محفوظ نہیں ہوگی، سیاست کرنی ہے تو عمران خان اور پوری کابینہ بیٹھی ہوئی ہے’۔
یہ بھی پڑھیں: جب بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتو سمجھ جاؤ وزیراعظم چور ہے، مریم نواز
معاون خصوصی نے کہا کہ ‘وزیراعظم عمران خان کے فیصلوں پر سیاسی تنقید کیجیے گالی گلوچ مت کیجیے، یہ برداشت نہیں کی جائے گی، جب آپ گالی گلوچ کریں گے تو جواب آئے گا اور 12 ربیع الاول جیسے دن مت چنیے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اپنی خواہشات پر مغلظات مت لکھیے، اس سے صرف مجھے نہیں، ہماری پارٹی کو نہیں بلکہ گھر میں بیٹھی ہر ماں، ہر بہن اور ہر بیوی کو تکلیف پہنچتی ہے جب آپ خواتین کے بارے میں اس طرح کی بات کرتے ہیں، آپ سے ہم سوال پوچھیں تو آپ ہراساں ہوجاتی ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ میں دیگر خواتین سے بھی کہوں گا کہ اس کے خلاف بولیں، سوشل میڈیا پر بات کریں۔
خیال رہے کہ صحافی عاصمہ شیرازی نے بی بی سی اردو پر ‘کہانی بڑے گھر کی’ کے عنوان سے کالم لکھا تھا جس میں انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر افسانوی طرز میں ستاروں کی چال کا ذکر کیا تھا۔
انہوں نے اپنے کالم کے آخر میں لکھا تھا ‘اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں’۔
صحافی نے لکھا کہ ‘اب تبدیلی کے اس چرخے میں کون کون آئے گا؟ سیاسی چال ستاروں کے حال سے زیادہ اہم ہے’۔
اس کالم کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنماؤں، وفاقی وزرا اور کارکنوں نے سوشل میڈیا پر عاصمہ شیرازی کے خلاف مہم چلائی اور توہین آمیز الفاظ کے ساتھ ٹوئٹر پر ٹرینڈ بنایا گیا۔
وفاقی وزرا نے ٹوئٹر پر عاصمہ شیرازی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر الزامات بھی عائد کیے۔