• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

پی پی پی رہنما خورشید شاہ 2 سال بعد جیل سے رہا

شائع October 23, 2021
خورشید شاہ کو 25 ماہ بعد سپریم کورٹ کے حکم پر رہا کردیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز
خورشید شاہ کو 25 ماہ بعد سپریم کورٹ کے حکم پر رہا کردیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو آمدن سے زائد اثاثوں کےکیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دو سال بعد سکھر جیل سے رہا کردیا گیا۔

پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما خورشیدشاہ کو دو سال (25 ماہ) بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بنائے گئے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں درخواست ضمانت کی منظوری کے بعد رہا کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: اثاثہ جات ریفرنس: سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی ضمانت منظور کرلی

خورشید شاہ کو سینٹرل جیل سکھر سے رہا کیا گیا، اس موقع پر جیل کے باہر جیالوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے خورشید شاہ کا استقبال کیا، کارکنوں نے ان کی گاڑی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور نعرے بازی کی۔

پی پی پی کے کارکن خورشید شاہ کی رہائی کی خوشی میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے رہے اور انہیں گاڑیوں کے بڑے جلوس میں ان کی رہائش گاہ کی طرف روانہ کردیا۔

اس سے قبل خورشید شاہ کو سکھر کی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں انہوں نے ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکوں پر دستخط کیے، جس کے بعد انہیں واپس جیل لایا گیا اور ضروری کارروائی کے بعد ان کو رہا کردیا گیا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے دو روز قبل ان کی نیب کی جانب سے ایک ارب 23 کروڑ روپے سے زائد آمدن کے اثاثے بنانے کے الزام میں دائر ریفرنس میں ضمانت منظور کی تھی لیکن احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ کے آرڈر کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے ان کی رہائی میں ایک دن کی تاخیر ہوئی۔

سپریم کورٹ میں دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ اب تک کتنے گواہان کے بیان ریکارڈ ہوئے ہیں؟

جس پر نیب کے وکیل مخدوم علی خان نے بتایا تھا کہ خورشید شاہ کے خلاف تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں اور ان پر 574 ایکڑ زرعی اراضی کی خریداری پر کرپشن کا الزام ہے۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ‏12 پراپرٹیز اور 5 بینک اکاونٹس کو جواز بنا کر ریفرنس بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس: خورشید شاہ سمیت 18 ملزمان پر فرد جرم عائد

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیے کہ ‏کیا یہ زمین نہری ہے، اگر نہری ہے تو اسکی ویلیو زیادہ ہو گی۔

‏بعدازاں عدالت نے خورشید شاہ کو ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ضمانت منظور کرلی تھی۔

خورشید شاہ کی گرفتاری اور ان پر الزامات

خیال رہے کہ نیب 19 ستمبر 2019 کو پی پی پی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کیا تھا۔

31 جولائی کو نیب نے رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اگست میں تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔

30 نومبر 2020 کو سید خورشید شاہ، سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ، رکن صوبائی اسمبلی فرخ شاہ سمیت 18 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی لیکن انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

یاد رہے ذرائع نے بتایا کہ نیب کی جانب سے خورشید شاہ کو سکھر میں طلب کیا گیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے رہنما کی جانب سے یہ کہہ کر پیشی سے معذرت کرلی گئی تھی کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش ہونا تھا۔

اس سے قبل اگست میں احتساب کے ادارے نے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کے ذریعے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثے بنانے کا الزام عائد کیا تھا لیکن پی پی پی کے رہنما نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خورشید شاہ کےخلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس سماعت کیلئے منظور

اس وقت نیب ذرائع کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات میں بتایا گیا تھا کہ ادارے نے خورشید شاہ کے خلاف بینک اکاؤنٹس، بے نامی اثاثوں اور متعدد فرنٹ مینز کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں۔

مذکورہ معاملے کی تفصیلات میں یہ بات سامنے آئی تھیں کہ خورشید شاہ اور ان کے اہلخانہ کے کراچی، سکھر اور دیگر علاقوں میں 105 بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اس کے علاوہ پی پی رہنما نے اپنے مبینہ فرنٹ مین ’پہلاج مل‘ کے نام پر سکھر، روہڑی، کراچی اور دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر 83 جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔

اس ضمن میں مزید بتایا گیا تھا کہ خورشید شاہ نے مبینہ فرنٹ مین لڈو مل کے نام پر 11 اور آفتاب حسین سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنائیں۔

مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے اپنے مبینہ ’فرنٹ مین‘ کے لیے امراض قلب کے ہسپتال سے متصل ڈیڑھ ایکڑ اراضی نرسری کے لیے الاٹ کرائی، اس کے علاوہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں مبینہ طور پر عمر جان نامی شخص کا بھی مرکزی کردار رہا جس کے نام پر بم پروف گاڑی رجسٹرڈ کروائی گئی جو سابق اپوزیشن لیڈر کے زیر استعمال رہی۔

اس کے علاوہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں خورشید شاہ کا زیر استعمال گھر بھی عمر جان کے نام پر ہے اور سکھر سمیت دیگر علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبے عمر جان کی کمپنی کو فراہم کیے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024