• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ

شائع November 17, 2021
اپوزیشن نے اسپیکر کو متنازع قرار دے دیا—فوٹو:ریڈیو پاکستان
اپوزیشن نے اسپیکر کو متنازع قرار دے دیا—فوٹو:ریڈیو پاکستان
بل منظور ہونے پر وزیر اعظم عمران خان سمیت حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے ڈیسک بجا کر خوشی کا اظہار کیا — تصویر: ڈان نیوز
بل منظور ہونے پر وزیر اعظم عمران خان سمیت حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے ڈیسک بجا کر خوشی کا اظہار کیا — تصویر: ڈان نیوز

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2021 سمیت دیگر بلز اپوزیشن کی شدید ہنگامہ آرائی اور مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

اس بل کے تحت 2017 کے الیکشن ایکٹ میں دو ترامیم تجویز کی گئی ہیں جو کہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق ہیں۔

بل منظور ہونے پر وزیر اعظم عمران خان سمیت حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے ڈیسک بجا کر خوشی کا اظہار کیا جبکہ اپوزیشن نے اس کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بدھ کو طلب کرلیا

قبل ازیں مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان کی جانب سے انتخابی اصلاحات بل پیش کرنے کی تحریک کثرت رائے سے منظور کی گئی۔

انتخابی اصلاحات کی تحریک کے حق میں 221 جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ آئے۔

ووٹوں کی گنتی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے اعتراض اٹھایا جس پر اسپیکر نے دوبارہ گنتی کرنے کی ہدایت کی۔

تاہم گنتی کے دوران ایوان میں شدید بےنظمی پیدا ہوگئی اور اپوزیشن اراکین اسپیکر ڈائس کے سامنے آگئے اور حکومت و وزیر اعظم کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

ایوان میں گرما گرمی کے باعث سارجنٹ ایٹ آرمز نے وزیر اعظم کو اپنے حصار میں لے لیا جبکہ اپوزیشن اراکین نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دیگر مندرجہ ذیل بلز بھی منظور کیے گئے۔

  • بھارتی جاسوسی کلبھوشن یادیو سے متعلق عالمی عدالت انصاف نظرثانی و غور مکرر بل2021
  • اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروسز کارپوریشن ترمیمی بل 2021
  • مسلم عائلی قوانین میں ترمیم کے 2 بلز
  • نیشنل کالج آف آرٹس انسٹی ٹیوٹ بل
  • اسلام آباد میں رفاہی اداروں کی رجسٹریشن، انضباط کا بل
  • انسداد ریپ (انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) بل2021
  • حیدرآباد انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنیکل اینڈ منیجمنٹ سائنس بل 2021
  • اسلام آباد میں تجدید کرایہ داری ترمیمی بل 2021
  • فوجداری قانون ترمیمی بل 2021
  • کارپوریٹ کمپنیز ترمیمی بل 2021
  • مالیاتی اداروں کی محفوظ ٹرانزیکشن ترمیمی بل 2021
  • فیڈرل پبلک سروس کمیشن قواعد کی تجدیدی بل 2021
  • یونیورسٹی آف اسلام آباد بل 2021
  • زرعی، کمرشل اور صنعتی مقاصد کے لیے لون سے متعلق ترمیمی بل 2021
  • کمپنیز ترمیمی بل 2021
  • نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن ترمیمی بل 2021
  • اکادمی ادبیات پاکستان ترمیمی بل 2021
  • پورٹ قاسم اتھارٹی ترمیمی بل 2021
  • پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ترمیمی بل 2021
  • گوادر پورٹ اتھارٹی ترمیمی بل 2021
  • میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی ترمیمی بل 2021
  • نجکاری کمیشن ترمیمی بل 2021
  • کووڈ-19 بل 20121
  • الکرم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ بل 2021
  • اسلام آباد وفاقی حدود میں جسمانی سزا سے متعلق بل 2021

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں مجموعی طور پر 33 بل منظور کیے گئے، جن میں 2 بل اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے۔

اپوزیشن کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سید جاوید حسنین نے الکرم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ بل 2021 وار مہناز اکبر عزیز کی جانب سے اسلام آباد وفاقی حدود میں جسمانی سزا کا بل پیش کیا گیا۔

بعد ازاں اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت ایک گھنٹے تاخیر سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے آغاز میں ہی مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے انتخابی اصلاحات بل پر ووٹنگ مؤخر کرنے کی درخواست کی۔

اسد قیصر نے بابر اعوان کو ایجنڈا نمبر ٹو یعنی الیکشن ترمیمی بل کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ کا بل منظوری کے لیے پیش کرنے کی دعوت دی تو بابر اعوان نے جواب دیا کہ اپوزیشن اس معاملے پر آپ سے بات کرنا چاہتی ہے، اس لیے اسے فی الحال مؤخر کردیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کی اتحادی جماعتوں کو گردن پر بوٹ رکھ کر مجبور کیا جا رہا ہے، فضل الرحمٰن

ای وی ایم، ایول اینڈ ویشیئز مشین ہے، شہباز شریف

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

اجلاس میں سب سے پہلے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں انتہائی اہم دن ہے میں اس ایوان میں آج جو حکومت اور اس کے اتحادی بلڈوز کرا کر پارلیمانی روایات کی دھجیاں اڑانا چاہتے ہیں اس کا بوجھ اسپیکر اور معزز ایوان کے کاندھوں پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ چند روز قبل رات کے اندھیرے میں بتایا گیا کہ اگلی صبح پارلیمان کا اجلاس ہوگا اور پھر جب عمران خان کے عشایئے سے پی ٹی آئی کے درجنوں اراکین غیر حاضر اور اتحادی انکاری تھے تو یکایک اجلاس مؤخر کردیا گیا اور حکومتی وزرا نے کہا کہ ہمیں متحدہ اپوزیشن سے مشورہ کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس کے بعد مجھے آپ کا خط موصول ہوا جس پر پورے اپوزیشن اتحاد نے غور کر کے جامع جواب دیا جس میں بہترین تجاویز دی گئیں لیکن اسپیکر نے پھر اپوزیشن سے اپنا رابطہ منقطع کرلیا، ہمیں کوئی جواب نہ ملا۔

شہباز شریف نے کہا کہ اس سلسلے میں کمیٹی کی تشکیل پر نہ ہم سے مشاورت کی گئی نہ آئندہ کا لائحہ عمل بتایا گیا، یہ ڈھکوسلہ تھا اور وقت حاصل کرنے کا حربہ تھا تا کہ کسی طرح ووٹس کی تعداد پوری کی جائے اور اتحادیوں کو راضی کیا جائے وربہ آپ کا مشاورت کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد اگر دھاندھلی ہوئی ہو تو اس کا شور ہوتا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ الیکشن سے پہلے نہ صرف یہ ایوان بلکہ 22 کروڑ عوام دھاندلی کا شور کررہی ہے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ یہ جانتے ہیں کہ اب انہیں عوام سے ووٹ ملنا محال ہے لہٰذا کوشش یہ ہے کہ یہ سیلیکٹڈ حکومت مشین کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دے سکے، کیوں کہ یہ ووٹ کے لیے نہیں جاسکتے۔

صدر مسلم لیگ (ن) نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (ای وی ایم) کو ایول اینڈ ویشیئز مشین یعنی شیطانی مشین قرار دیا اور کہا کہ حکومت اس پر تکیہ کیے بیٹھی ہے۔

انہوں نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، یہی وہ پارلیمان ہے جہاں 1973 کا آئین منظور ہوا تھا جو مشاورت لچک کا شاندار نمونہ ہے جس نے پاکستان کو متحد رکھا ہے۔

اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ آج شخصی اور وقت مصلحت کی خاطر اگر آپ نے ان بلز کو منظور ہونے دیا تو تاریخ اور 22 کروڑ عوام آپ کو معاف نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ آپ اس ایوان کے کسٹوڈین ہیں لیکن جس طرح غیر قانونی یا غیر آئینی طریقے سے ان بلز کو پیش کیا جارہا ہے تو کہاں گئی آپ کی مشاورت، آپ کا خط اور ہمارے خط کا جواب؟

جس پر اسپیکر نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ میں آپ کے خط کا جواب دوں گا اور کوئی کام آئین و قانون کی خلاف ورزی میں نہیں کروں گا۔

جس پر شہباز شریف نے کہا کہ آپ کے اس دعوے کا امتحان یہ ہے آپ دارالعوام کے اسپیکر کی طرح پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیں تو ہم آپ کو لبیک کہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 18ویں، 19ویں ترمیم ہو یا نیشنل ایکشن پلان ہو یہ تمام بڑے مراحل دانش، حکمت، صبر اور وسیع تر قومی مفاد کے نتیجے میں طے کیے گئے، قوم ان معاملات کو بہت اچھی طرح جانتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح پی ٹی آئی حکومت، عمران خان نے عوام کا گلا کاٹا، عام اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہے اسی طرح آج یہ اس ایوان میں معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں، یہ متحدہ اپوزیشن سیسہ پلائی دیوار بن جائے گی اور یہ کام نہیں ہونے دیا جائے گا۔

شہباز شریف نے کہا کہ پارلیمان کو تالا لگایا جاتا ہے، بلز کو بلڈوز کیا جاتا ہے، دیکھتی آنکھ نے اس سے بدتر اور سیاہ دور پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ انہی انتخابی اصلاحات پر نواز شریف کے دور میں کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کو نمائندگی دی گئی اور اس کے 117 اجلاس ہوئے جبکہ آپ کی بنائی گئی کمیٹی کا ایک اجلاس جون میں ہوا ایک اگست میں اور ایک ستمبر میں ہوا اور پھر بات ختم ہوگئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پی ٹی آئی پارلیمان کو آگ لگانے کی باتیں کرتی تھی اس کے باوجود ان کی نمائندگی بھی اس کمیٹی میں تھی اور متفقہ طور پر مشاورت کے ساتھ انتخابی اصلاحات کا بل منظور ہوا تھا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کے 167 ممالک میں صرف 8 ممالک ای وی ایم کا استعمال کرتے ہیں جبکہ 9 نے اسےتائب ہو کر اسے مسترد کردیا جس میں جرمنی بھی شامل ہے حالانکہ ہو ہم سے ٹیکنالوجی میں کہیں آگے ہیں۔

شہباز شریف نے آج حکومت کی نیت کھوٹی ہے اس میں فتور ہے اس لیے یہ کالے قوانین منظور کرانا چاہتے ہیں جس کی اجازت نہ آپ اور نہ یہ ایوان دے گا ورنہ ان کاگریبان ہوگا اور 22 کروڑ عوام کا ہاتھ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے سخت اعتراضات کے باوجود حکومت اجلاس بلا کر یہ کالے قوانین کو منظور کرانا چاہتے ہیں، اس ساری دھونس دھاندلی اور جبر کا مقصد یہ ہے کہ کچھ ایسا ہوجائے کہ عوام کے پاس نہ جانا پڑے اور ای وی ایم ان کا مقصد پورا کردے۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، آپ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے یہ اجلاس مؤخر کریں اور مکمل مشاورت کریں اس کے بغیر آپ جو چاہیں کرلیں یہ قوم کسی صورت ان کالے قوانین کو نہیں مانے گی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کو انا یا ضد کی بنا پر مسترد نہیں کیا بلکہ قانون، آئین اور مکمل ٹھوس دلائل کی بنیاد پر مسترد کیا جس پر وزرا نے الیکشن کمیشن پر تابڑ توڑ حملے کیے اور الزامات لگائے۔

سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں ان کے ووٹنگ کے حق سے اختلاف نہیں بلکہ ہم اس کی تائید کرتے ہیں لیکن بات کچھ اور وہ یہ کہ حکومت سمندر پار پاکستانیوں کا نام استعمال کر کے اپنے فسطائی منصوبوں کو کامیاب کرانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سمندر پار پاکستانیوں کو ای وی ایم اور ووٹنگ رائٹس کا اس طرح سبز باغ دکھا رہی ہے جس طرح ڈیم فنڈ کا دکھایا تھا۔

شہباز شریف نے کہ ڈسکہ رپورٹ سامنے آچکی ہے کہ کس طرح ووٹوں کے تھیلے پکڑے گئے اور لوگوں کو اغوا کیا گیا اور سزا کا تعین باقی ہے، ان سے ہم یہ توقع کریں کہ یہ انتخابی اصلاحات لائیں گے؟ یہ ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کی نیت نیک ہوئی تو ہم تعاون کے لیے تیار ہیں، آپ اجلاس مشاورت کریں اور مشاورت کا عمل مکمل کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس حکومت میں 3 الفاظ کے معنی بدل گئے، بربادی کا نام تبدیلی ہوگیا، انتقام کا نام احتساب اور دھاندلی کا نام ای وی ایم مشین ہوگیا۔

اپوزیشن ضمیر کا سودا نہ کرے اور بل کے حق میں ووٹ دے، وزیر خارجہ

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ حکومتی اراکین نے قائد حزب اختلاف کی گفتگو کو سنجیدگی سے سنا، کہا گیا کہ آج تاریخی دن ہے، میں اتفاق کرتا ہوں کہ آج واقعی تاریخی دن ہے، آج یہ ایوان ایک ایسی قانون سازی کرنے چلی ہے جس سے ماضی کی خرابیاں تبدیل ہوکر ایک شفاف الیکٹورل نظام متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کالا قانون مسلط کرنا نہیں بلکہ ماضی کی کالک کو دھونا چاہتے ہیں، آج تاریخی دن اس لیے بھی ہے کیونکہ 1970 کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے سب پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا، کبھی پیپلز پارٹی نے کہا دھاندلی ہوئی، کبھی مسلم لیگ (ن) نے کہا، تحریک انصاف نے بھی 2013 میں کہا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’شہباز شریف نے کہا کہ ہم قانون سازی کو بلڈوز کرنا چاہتے ہیں، ہم ایسا نہیں کر رہے، یہ کوئی راز نہیں، ہم نے آپ سے رجوع کیا آپ کو ای وی ایم مشین پیش کرنے کا موقع فراہم کیا تاہم اس وقت آپ نے اس پر توجہ نہ دی‘۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ہم نے مشترکہ اجلاس مسلط نہیں کیا، 11 نومبر کو ہی ہم نے تاریخ دے دی تھی، اسے موخر کیا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کہتے ہیں کہ ہمارے پاس عددی اکثریت نہیں تھی اس لیے موخر کیا گیا، اگر عددی اکثریت نہ ہوتی تو ہم آج یہ بل کیوں پیش کرتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’قانون سازی کا ایک طریقہ کار ہے، ہم نے ہر طریقے پر عمل کیا ہے، اراکین کے سوالات تھے، ہم نے انہیں دلائل دے کر قائل کیا اور اس ہی وجہ سے اراکین حکومت کی صفوں میں بیٹھے ہیں‘۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ای وی ایم مشین کو ایول ویشس مشین قرار دیا گیا، یہ ایول ویشس سوچ کو دفن کرنے کے لیے لائی جارہی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ کہا گیا کہ ہم تاریخی غلطی کرنے جارہے ہیں، میں کہوں گا کہ اپوزیشن تاریخی قانون سازی کے خلاف کھڑے ہوکر تاریخی غلطی کرنے جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کہتی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں مگر اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں، یہ کیسا دوہرا معیار ہے کہ ان کے ڈالر قبول ہے مگر ووٹ نہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’اگر آج ایوان اس بل کو منظور کرتا ہے تو اوور سیز پاکستانیوں کو ان کا حق مل کر رہے گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپوزیشن سے گزارش کروں گا کہ اپنے ضمیر کا سودا نہ کیجئے اور اس بل کے حق میں ووٹ دیجئے‘۔

انتخابی اصلاحات بل منظور کیا گیا تو ہم آج سے اگلے الیکشن نہیں مانتے، بلاول

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اسپیکر نے کہا تھا کہ قانون اسمبلی میں لانے سے قبل مشاورت کی جائے گی، حکومت کے جھوٹ میں اسپیکر کا دفتر اور عہدہ استعمال نہیں ہونا چاہیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے آرڈیننس کے ذریعے یکطرفہ طور پر انتخابی اصلاحات لانے کی کوشش کی اور آج بلڈوز کرکے اصلاحات منظور کرانا چاہتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگریہ قانون منظور کیا گیا تو ہم آج سے اگلے الیکشن نہیں مانتے‘۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’حکومت زبردستی ای وی ایم لانا چاہتی ہے، اسپیکر اپنے عہدے کی عزت کریں اور اپنی بات پر قائم رہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جلدی کیا ہے، ہم آج سے مل کر بیٹھتے ہیں، آپ ہمارے اعتراضات کے باوجود قوانین منظور کروارہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’انتخابی اصلاحات کے متنازع قوانین کے خلاف عدالت میں جائیں گ، ایسا نہیں ہوسکتا ووٹ پیرس میں ڈلے اور نتیجہ ملتان کا ہو‘۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ’حکومت پیٹرول اور گیس کی قیمت کم کرے، ہم اس کا ساتھ دیں گے تاہم یہ کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی ادارہ ایسا نہیں جو پارلیمان سے بالاتر ہو، حکومت بھارتی ایجنٹ کو این آر او دینے کی کوشش کر رہی ہے، اس سے قبل بھی حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے اسے این آر او دینے کی کوشش کی تھی تاہم بھارتی ایجنٹ نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’قوم اس وقت سیاستدانوں کی طرف دیکھ رہی ہے، اپوزیشن ایوان کے اندر باہر اور عدالتوں میں یہ قانون چیلنج کرے گی‘۔

وزیراعظم کی میڈیا سے مختصر گفتگو

وزیراعظم عمران خان اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر قبل پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے اور پی ٹی آئی کی پارلیمانی ٹیم کے اجلاس کی صدارت کرنے کے لیے جانے سے قبل میڈیا کے سامنے خاموش رہے۔

ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ ’آپ اتنی ملاقاتیں کر رہے ہیں، کیا آپ اکثریت ہونے کے باوجود کسی چیز سے پریشان ہیں؟‘

وزیر اعظم عمران نے جواب دیتے ہوئے اس تاثر کی حوصلہ شکنی کرتے نظر آئے کہ انہیں آج کے اجلاس میں اپنے اتحادیوں کو حمایت کے لیے راضی کرنا پڑا، اور کہا کہ ’لوگوں سے کون مل رہا ہے؟‘۔

مزید پڑھیں: حکومت مشترکہ اجلاس کے ذریعے بلوں کی منظوری کے لیے پرامید

انہوں نے کہا کہ ’جب ایک کھلاڑی کھیل کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو وہ ہر ممکنہ نتائج کے لیے تیار ہوتا ہے اور اپنے حریف سے بہتر کارکردگی کا عہد کرتا ہے‘۔

بلاول بھٹو کی شہباز شریف سے ملاقات

دریں اثنا پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جو منگل کی شام اسلام آباد پہنچے تھے، نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی۔

متوقع سیشن سے قبل وزیر اطلاعات فواد چوہدری پر امید تھے کہ قانون ساز اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے ایک قانون منظور کریں گے۔

ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت پی ٹی آئی اپنے ایک اور انتخابی وعدے کو پورا کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) سے متعلق قوانین اور سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ووٹنگ کے حقوق پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے سنگ میل ثابت ہوں گے‘۔

حکومت کو یہ اعتماد اتحادیوں کی جانب سے حمایت کی یقین دہانیوں کے بعد سامنے آیا۔

پی ٹی آئی حکومت کے ناراض اتحادیوں، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے تحفظات وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دور کیے جانے کے بعد منگل کو فیصلہ کیا کہ وہ مشترکہ اجلاس میں پیش کیے جانے والے بلوں کے حق میں ووٹ دیں گے۔

وزیر اعظم نے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک مصروف دن گزارا جہاں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، پی ایم ایل (ق) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے تعلق رکھنے والے متعدد اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات کی جنہوں نے انہیں بلوں کو منظور کرانے میں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔

دریں اثنا پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ’پیدا کی گئی اکثریت‘ نظام کو مفلوج کرنا شروع کر دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس وقت دارالحکومت میں متزلزل حکومت کی طرف سے اتنا زور لگایا جا رہا ہے کہ اسلام آباد کے آرتھوپیڈک سرجن کو چوکنا رہنا چاہیے، اپوزیشن متحد ہے‘۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024