• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

سینیٹ: ’آئی ایم ایف کے سامنے جھکنے‘ پر اپوزیشن کی حکومت پر شدید تنقید

شائع December 23, 2021
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ایس بی پی کے خودمختاری ایکٹ میں تبدیلی کے لیے حکومت کے منصوبے مزید خطرناک ہیں — فائل فوٹو: ڈان
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ایس بی پی کے خودمختاری ایکٹ میں تبدیلی کے لیے حکومت کے منصوبے مزید خطرناک ہیں — فائل فوٹو: ڈان

سینیٹ میں اپوزیشن نے حکومت پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ’مالیاتی طور پر ہتھیار ڈالنے کی دستاویز‘ پر دستخط کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو صرف آئی ایم ایف کو جوابدہ بنانے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایوان بالا میں گفتگو کرتے ہوئے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے دعویٰ کیا کہ کابینہ نے حال ہی میں ہونے والے اجلاس میں ’منی بجٹ‘ بل پر غور مؤخر کردیا تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ اس کا نفاذ آئی ایم ایف کے ساتھ آرڈیننس کے ذریعے کریں۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دستخط کردہ معاہدے کی تفصیلات کا تبادلہ عوام یا پارلیمنٹ کے ساتھ نہیں کیا گیا ہے لیکن بجلی اور گیس کے علاوہ پیٹرول اور مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: رضا ربانی کا بلیک آؤٹ کے معاملے پر وزیر توانائی سے استعفے کا مطالبہ

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ایس بی پی کے خودمختاری ایکٹ میں تبدیلی کے لیے حکومت کے منصوبے مزید خطرناک ہیں۔

تجویز کردہ ترمیم کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’اس ترمیم سے ایس بی پی حکومتی دائرہ اختیار میں رہے گا نہ ہی پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوگا، اس ترمیم کے بعد مرکزی بینک آئی ایم ایف کو جوابدہ ہوگا‘۔

انہوں نے ایوان کو غیر متعلقہ بنانے کی کوشش پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قومی حکمت عملی کا معاملہ ہو یا قومی اقتصادی فیصلے، پارلیمنٹ کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر نے اعلان کیا کہ اپوزیشن اس منی بجٹ اور آنکھیں بند کر کے آئی ایم ایف کے حکم پر عمل درآمد کرنے کے اقدامات کی مزاحمت کرتی ہے۔

انہوں نے آئین کے آرٹیکل 77 کا حوالہ دیا کہ ’وفاق کے مقاصد کے تحت یا مجلسِ شوریٰ (اسمبلی) کی منظوری کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا‘۔

مزید پڑھیں: کیا نیب کا قانون صرف سیاستدانوں کے لیے ہے؟ رضا ربانی

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ایوان میں کوئی معنی خیز گفتگو نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ جب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا تو حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ 10 روز میں تفصیلات سے آگاہ کردیا جائے گا لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا۔

جواب میں پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہزاد وسیم نے رضا ربانی کے تحفظات کی تردید کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ جب پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہے تو حکومت آرڈیننس کے ذریعے کس طرح منی بجٹ لاسکتی ہے۔

انہون نے کہا کہ طویل مدت کے لیے سینیٹ کا اجلاس بھی جاری رہے گا اور ’ہم مضبوط وجوہات کی بنا پر ایوان میں تبادلہ خیال کریں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ نے منی بجٹ پر تبادلہ خیال نہیں کیا اور جب یہ متعارف کروایا جائے گا اس کی تفصیلات عوامی سطح پر لائی جائیں گی اور اسمبلی میں بھی اس پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

خطاب کے دوران ڈاکٹر شہزاد وسیم نے رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ہی معاملہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بل کا بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ رضا ربانی نے اس بل کی دستاویزات نہیں دیکھیں، دستاویزات آنے دیں۔

یہ بھی پڑھیں: آرڈیننس سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ مشروط ہو، ایسی مثال ماضی میں نہیں ملتی، رضا ربانی

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں مفروضوں پر بات کرنے سے بچنا چاہیے۔

انہوں نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو ان حالات کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے جس نے حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام سے سہولت حاصل کرنے پر مجبور کیا۔

شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔

انہوں نے سابقہ حکومتوں پر الزام عائد یا کہ انہوں نے ملک کو قرضوں کے جال میں دھکیل دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے 55 ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے اور ہم گزشتہ 3 برسوں میں 29 ارب ڈالر پہلی ہی واپس کرچکے ہیں رواں سال اور آئندہ سال میں مزید 12، 12 ارب ڈالر بھی ادا کردیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پانچ سالوں میں 27 ارب ڈالر کے قرضے ادا کیے تھے۔

انہوں نے ملک کے خراب معاشی حالات کو سابقہ حکومتوں کی ’بدانتظامی‘ قرار دیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس سے اپوزیشن کا بائیکاٹ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس پر انحصار کرنے پر مشترکہ اپوزیشن کے اراکین نے قومی اسمبلی سے احتجاجاً واک آوٹ کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پہلے روز کورم مکمل نہ ہونے کے باعث اجلاس چند منٹوں میں ہی ملتوی کردیا۔

اجلاس میں ایجنڈا آئٹم بھی پر بھی تبادلہ خیال نہیں کیا گیا۔

اسپیکر نے اسمبلی عملے کو کورم پورا نہ ہونے کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے اجلاس جمعہ تک ملتوی کردیا۔

اس کی نشاندہی واک آوٹ سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے رواں سیشن میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت موجودہ مالی سال میں 600 ارب روپے کٹوتی اور اخراجات میں توازن سے متعلق منی بجٹ پیش کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے، لیکن وقتی طور پر یہ اقدام مؤخر کردیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024