• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سینیٹ کمیٹی میں انسداد ریپ قانون پر عمل درآمد کی رپورٹ طلب

شائع December 24, 2021
کمیٹی نے مجوزہ ترامیم کے حوالے سے سینیٹ سے منظور کی گئی قراردادوں کا ریکارڈ بھی طلب کیا — فائل فوٹو: اے پی پی
کمیٹی نے مجوزہ ترامیم کے حوالے سے سینیٹ سے منظور کی گئی قراردادوں کا ریکارڈ بھی طلب کیا — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے سیکریٹری داخلہ اور پولیس سربراہان کو ہدایت کی ہے کہ وہ نئے انسداد ریپ قانون کے نفاذ کے حوالے سے اعداد و شمار کے ساتھ کمیٹی کے سامنے پیش ہوں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر نے گزشتہ روز کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انسداد ریپ قانون کی منظوری کی حکومتی کوششوں کی تعریف کی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ماضی میں بنیادی اعتراض اس کے نفاذ کے حوالے سے تھا۔

حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 میں زیادتی کے مقدمات کی تفتیش اور ٹرائل کے لیے جدید آلات کے استعمال اور خصوصی عدالتوں کے قیام کی بات کی گئی ہے۔

اس اجلاس میں سینیٹر علی ظفر کے علاوہ سینیٹر شبلی فراز، محمد اعظم خان سواتی، اعظم نذیر تارڑ، میاں رضا ربانی، کامران مرتضیٰ، منظور احمد کاکڑ، مشتاق احمد اور دیگر نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: کابینہ کمیٹی نے سخت سزاؤں کیلئے انسداد ریپ آرڈیننس کی منظوری دے دی

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں وفاقی دارالحکومت اور صوبوں میں ہونے والے زیادتی کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں، انہوں نے ایک خبر کا حوالہ بھی دیا جس کے مطابق کچھ افراد نے ایک 14 سالہ لڑکی کے ریپ میں معاونت کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اکثریت کے فائدے کے لیے مقننہ کے بنائے گئے قوانین پر بہت کم عمل درآمد ہوتا ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ان کے پاس موجود معلومات کے مطابق پولیس سربراہان اور تمام محکمہ داخلہ، انسداد ریپ قانون کی مختلف دفعات کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں، اس وجہ سے تفتیش اور طبی معائنے سے متعلق دفعات پر عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔

انہوں نے وزارت قانون کو ہدایت کی انسداد ریپ قانون کے نفاذ سے متعلق اقدامات کی تفصیلات فراہم کریں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کمیٹی کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں مقننہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کی علیحدگی کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے دائرہ کار کے بارے میں کچھ فیصلے سنائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو آئین کے تحت اپنے اختیارات اور دائرہ کار کا تحفظ کرنا چاہیے اور حکم دیا کہ ان مقدمات کی تفصیلات آئندہ سماعت کی تاریخ پر کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: ریپ کیسز کی سماعت کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا بل منظور

کمیٹی نے سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی اور دیگر کی طرف سے پیش کی گئی آئینی ترامیم کا جائزہ لیا، کمیٹی کے مطابق مقننہ کو قانون منظور کرنے کا حق ہے اور چونکہ ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان اختیارات کی علیحدگی ایک آئینی معاملہ ہے اس وجہ سے اس معاملے پر تفصیل سے غور کرنا ہوگا۔

کمیٹی نے صوبوں کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کی شکایات کو سامنے لانے میں سینیٹ کے کردار کے حوالے سے مختلف آئینی ترامیم پر تفصیلی غور کیا، اس کے علاوہ آرڈیننس کے نفاذ سے متعلق صدرِ مملکت کے اختیارات بھی زیر بحث آئے۔

تاہم ان معاملات پر بات چیت بے نتیجہ رہی کیونکہ حکومت کے مختلف محکموں کی جانب سے جوابات کا انتظار ہے۔

کمیٹی نے مجوزہ ترامیم کے حوالے سے سینیٹ سے منظور کی گئی قراردادوں کا ریکارڈ بھی طلب کیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024