لاپتا بھائی کو سپریم کورٹ سے مردہ قرار دینے کا مطالبہ
لاپتا شخص کے بھائی نے سپریم کورٹ سے استفسار کیا ہے کہ آیا لاپتا شخص کے زندہ ہونے کے ثبوت نہ ملنے پر اس کی گمشدگی کے سات سال بعد اسے مردہ تصور کیا جائے یا نہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ وراثت کے تنازع سے متعلق اپیل عدالت عظمیٰ میں دائر کیے جانے کے بعد سامنے آیا، تنازع کا مرکز ایک فرد ہے جو 1973 سے لاپتا ہے۔
درخواست رواں ہفتے اسلام آباد کے بہارہ کہو کے رہائشی راجا محمد انور نے اپنے وکیل بیرسٹر منور اقبال ڈگل اور راجا محمد فاروق کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے 27 مارچ 2017 کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے دائر کی تھی۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ جب کوئی بالغ مسلمان 7 سال سے زائد عرصے سے لاپتا ہو تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مر چکا ہے۔
درخواست میں سوال کیا گیا کہ کیا قانون شہادت آرڈر 1984 کے آرٹیکل 123 اور 124 کو مسلمان کی وراثت کا فیصلہ کرنے کے مقصد کے لیے مغربی پاکستان مسلم پرسنل لا (شرعی اطلاق) ایکٹ 1962 کے سیکشن 2 پر ترجیح دی جاسکتی ہے؟ قانون کے تحت لاپتا بالغ شخص کی جانشینی سے متعلق تمام سوالات کا فیصلہ مسلم پرسنل لا کے مطابق کیا جانا چاہیے اگر تمام فریق مسلمان ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: لاپتا افراد کے بارے میں حکومت پالیسی سے آگاہ کرے، اسلام آباد ہائی کورٹ
کسی شخص کو مردہ قرارے دینے کے لیے قانون شہادت آرڈر کے آرٹیکل 123 اور 124 کے تحت عدالت کے سامنے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ جو شخص گزشتہ 30 سالوں میں کسی بھی وقت زندہ تھا وہ واقعی مر گیا تھا۔
یہ تنازع اس وقت سامنے آیا جب درخواست گزار راجا محمد انور نے 21 ستمبر 2013 کو اسلام آباد کے سینئر جج (ایسٹ) کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ان کے بھائی راجا محمد مظفر خان، جو 1973 سے لاپتا ہیں، کو قانون کے تحت مردہ قرار دیا جائے جو حکمی موت (عدالت کے ذریعہ موت کا اعلان) کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کے تحت قانونی وارثوں کو اس کی جائیداد کا وارث قرار دیا جائے۔
لیکن کچھ مدعا علیہان 20 نومبر 2013 کو عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے بیانات ریکارڈ کرائے کہ اگر عدالت نے جائیداد کو "تمام قانونی وارثوں" میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
کچھ مدعا علیہان کبھی پیش نہیں ہوئے اور عدالت نے یکطرفہ کارروائی کی، درخواست گزار خود بطور گواہ پیش ہوئے اوردعویٰ کیا کہ وہ لاپتا شخص راجا مظفر کا واحد زندہ بچ جانے والا قانونی وارث ہے۔
ٹرائل کورٹ نے 21 فروری 2015 کو اپنے فیصلے کے ذریعے قرار دیا کہ لاپتا شخص کی وراثت 1980 میں کھلی تھی اور تمام نجی مدعا علیہان کو قانونی وارث قرار دیا گیا تھا اور وہ ان کے حصے وصول کرنے کے حقدار تھے۔
درخواست گزار نے اس حکم کو ڈسٹرکٹ جج (ایسٹ) اسلام آباد کے سامنے چیلنج کیا، جنہوں نے 26 جون 2015 کو سابقہ حکم میں اس حد تک ترمیم کی کہ لاپتا شخص کو مردہ قرار دیا گیا تھا اور حنفی قانون کے تحت میت کی جائیداد کو وراثت کے لیے کھول دیا گیا تھا۔
اس کے بعد کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل جج بنچ کے پاس گیا۔ اس نے ٹرائل کورٹ کے فروری 2015 کے حکم کو بحال کیا۔
مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کی لاپتا شہری کے اہلِ خانہ کو 16 لاکھ روپے کی ادائیگی
اس ہفتے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل کے ذریعے درخواست گزار نے استدلال کیا کہ ہائی کورٹ نے غلطی کی تھی جب درخواست گزار نے استدعا کی کہ اس کے لاپتا بھائی کو حکمی موت کے قانون کے تحت مردہ قرار دیا جائے۔
درخواست میں استدلال کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی آبزرویشن بلاجواز ہے اور ریکارڈ پر موجود مواد کے خلاف ہے، جب اس نے قانون شہادت کے آرٹیکل 123 اور 124 کے تحت درخواست گزار پر یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری عائد کی تھی کہ راجا مظفر کی موت کے بعد دیگر قانونی وارث افراد کی موت ہوئی تھی۔
درخواست میں استدلال کیا گیا تھا کہ ہائی کورٹ اس بات کو تسلیم کرنے میں ناکام رہی ہے کہ اس درخواست میں کوئی تنازع نہیں تھا کہ لاپتا شخص نہ تو مردہ ہے اور نہ ہی زندہ اور اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس کے زندہ ہونے کا ایک قیاس تھا، یہ دعویٰ کرنے والے شخص پر فرض ہے کہ وہ ثبوتوں سے حقیقت ثابت کرے کہ راجا مظفر مر چکے تھے۔
درخواست گزار نے ہائی کورٹ کے سامنے دلیل دی کہ یہ تمام فریقین کا تسلیم شدہ مؤقف ہے کہ لاپتا شخص نہ تو مردہ ہے اور نہ ہی زندہ ہے، وہ 1973 سے لاپتا تھے۔
درخواست گزار نے دلیل دی کہ قانون شہادت آرڈر 1984 موجودہ کیس میں نافذ العمل نہیں تھا اور اس کے بجائے فقہ حنفی کے تحت شرعی ضابطہ قابل عمل ہو گا۔