• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

چیف جسٹس سے سپریم کورٹ کیلئے نامزدگی کا طریقہ کار طے کرنے کی درخواست

شائع January 5, 2022
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس عائشہ ملک کی ترقی پر غور کیا جائے گا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس عائشہ ملک کی ترقی پر غور کیا جائے گا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) جسٹس گلزار احمد کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پہلے سپریم کورٹ میں تقرر کے لیے ججوں کی نامزدگی کا طریقہ کار طے کریں اور پھر 6 جنوری کو ہونے والے کمیشن کے اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ اے ملک کی ترقی پر غور کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمیشن کے طے شدہ اجلاس سے دو روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان کو دو صفحات پر مشتمل خط لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ 'ایک بار نامزدگی اور انتخاب کے طریقہ کار کا تعین ہو جانے کے بعد اس سے ان بدگمانیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی کہ انتخاب کے عمل میں من مانیاں اثر انداز ہو رہی ہیں'۔

3 جنوری کو پاکستان بار کونسل (پی بی سی) اور تمام بار ایسوسی ایشنز کے ایک نمائندہ اجلاس نے چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ جے سی پی کا جمعرات کا اجلاس ملتوی کر دیا جائے، جس میں ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس عائشہ ملک کی ترقی پر غور کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بار کونسل کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی کی مخالفت

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے جے سی پی کے 9 ستمبر کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے تھے جس میں کمیشن کے کل آٹھ میں سے چار اراکین جسٹس مقبول باقر، جسٹس سردار طارق مسعود، سابق جج دوست محمد خان اور پی بی سی کے نمائندے اختر حسین نے جسٹس عائشہ ملک کی ترقی کے خیال کی مخالفت کی تھی۔

تاہم چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس عمر عطا بندیال، وفاقی وزیر قانون بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جسٹس عائشہ ملک کی حمایت کی۔

اس پیشرفت سے باخبر ایک ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں آئین کے آرٹیکل 175 اے (4) پر روشنی ڈالی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جے سی پی کو سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے چاہیے۔

خط میں زور دیا گیا کہ طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے کے لیے کمیشن کو آئین کے حکم سے باہر کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان رولز 2010 کے رول 3 کا مطلب صرف یہ تھا کہ نامزد افراد کو متعلقہ چیف جسٹس کے ذریعے آگے بڑھایا جائے، یہ نہیں کہ اکیلے چیف جسٹس ہی نامزدگی کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر اتفاق نہ ہوسکا

خط میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ کمیشن، نامزدگی اور انتخاب کے عمل کو شمولیتی اور شفاف بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ چیف جسٹس کے اختیارات میں اضافہ کرنے کے بجائے انہیں کم کیا جا سکے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 175اے (2) کے مطابق چیف جسٹس، کمیشن کے چیئرمین ہوں گے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں اور یہ انہیں کسی کو تنہا نامزد کرنے کا اختیار نہیں دیتا، اس میں یہ بھی نہیں کہا گیا کہ کمیشن صرف چیف جسٹس کے نامزدگی پر غور کرے ہے۔

خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں تقرر کے لیے نامزدگی کے بارے میں مختلف آرا سامنے آئی ہیں، اس لیے سب سے پہلے انتخاب کے طریقہ کار کا تعین کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر میرٹ بمقابلہ سنیارٹی دونوں باہمی طور پر خصوصی ہیں اور کسی بنیاد کے بغیر علاقائی، نسلی، مذہبی یا صنفی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے مثبت کارروائی کی ضرورت ہو تو جے سی پی کو پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا یہ آئین کے تحت جائز ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں پہلی مرتبہ ایک خاتون جج کی سپریم کورٹ میں شمولیت کا امکان

پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) میں ججوں کے تقرر کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے صرف دو ہفتے قبل ہائی کورٹ کے ججز کے طور پر تقرری کے لیے 6 نامزد افراد کی تجویز دی گئی تھی۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر وکلا اور ججوں کی طرف سے ظاہر کیے گئے خدشات کو نظر انداز کردیا گیا تو عوام کا اعتماد ختم ہوجائے گا، اِس یا اُس طرح سے ڈالے گئے ایک ووٹ سے امیدوار مل سکتا ہے لیکن من مانی نے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور منتخب ہونے والوں نے بےجا حمایت اور طرف داری کی چھت کے نیچے کام کرنا شروع کر دیا۔

لہٰذا پشاور ہائی کورٹ میں تقرری کے لیے نامزد افراد پر غور کرنے سے پہلے یہ مناسب ہوگا کہ جے سی پی اس طریقہ کار کا تعین کرے جس کے تحت نامزد افراد پر غور کیا جاسکے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے طریقہ کار کو آئندہ جے سی پی کے اجلاس کے لیے ایجنڈا بنایا جانا چاہیے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024