• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

حکومت منی بجٹ کے ذریعے ٹیکسز کا سونامی لا رہی ہے، بلاول بھٹو

شائع January 12, 2022
بلال بھٹو زرداری قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
بلال بھٹو زرداری قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ٹی آئی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ پر منی بجٹ لا کر ملک میں ٹیکسز کا سونامی لا رہی ہے۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ موجودہ حکومت نہ صرف سالانہ بجٹ دیتی ہے بلکہ ہر 2 ماہ بعد منی بجٹ بھی لے آتی ہے، موجودہ حکمران ملکی معیشت کے بارے میں کنفیوژ ہیں، کنفیوژن معیشت کی موت ہوتا ہے جبکہ معیشت پر کیے گئے فیصلے عوام کے لیے تکلیف دہ ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ آئی ایم ایف کے پاس گئے تو آپ کمزور تھے اس لیے کمزور ڈیل کی، آئی ایم ایف ڈیل کا بوجھ اب ملک کے غریب عوام اٹھائیں گے۔

’حکومت نے آئی ایم ایف سے پاکستان کی معاشی خودمختاری کا سودا کیا‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ آئی ایم ایف کا یہ بوجھ عوام کا معاشی قتل ہے، نیا پاکستان کا مطلب مہنگائی، بے روزگاری اور غربت ہے، آپ نے پاکستان کی معاشی خود مختاری کا سودا کیا ہے، جب پاکستان دولخت ہوا تب بھی ہماری معیشت منفی نمو میں نہیں تھی، عمران خان مزید غربت اور مہنگائی کا بندوبست کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت منی بجٹ میں نئے ٹیکس لگا رہی ہے، گاڑیوں کے ٹیکس میں 100 فیصد اضافہ ہوگا، یہ لوگ ٹیکسز کا سونامی لے کر آرہے ہیں، منی بجٹ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں :اپوزیشن نے بجٹ ’عوام دشمن‘ قرار دے کر مسترد کردیا

انہوں نے کہا کہ حکومت، آئی ایم ایف سے جو ڈیل لے کر آئی وہ بہت کمزور ہے، ڈیل کے تحت نئے لگنے والے ٹیکس کا بوجھ نوجوانوں کو اٹھانا پڑے گا، وزیر اعظم وہ کام کرنے جارہے ہیں جس میں اتحادی بھی ان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ حکومت کبھی کہتی ہے کہ دنیا میں مہنگائی ہے مگر پھر بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی نہیں ہے، کہتے ہیں پاکستان اب بھی خطے میں سب سے سستا ملک ہے حالانکہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے اس وقت ملک میں تاریخی مہنگائی ہے، وزیر اعطم مہنگائی کا نوٹس لیتے ہیں اور جب بھی وہ نوٹس لیتے ہیں تو مہنگائی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، ملک میں غربت اور بے روزگاری کے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔

’کے پی بلدیاتی انتخابات میں حکومت کی شکست صرف ٹریلر ہے‘

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا اب ملک کی معیشت اور حکومت کی کارکردگی اتنی خراب ہے کہ حکومتی ارکان بھی اپنے حلقوں میں حکومتی فیصلوں اور اقدامات کا دفاع نہیں کرسکتے ۔ پاکستان کے عوام آپکو جلد آپ کی کارکردگی بتائیں گے کہ آپ کو لگ بتا جائے گا ۔ حکمرانوں کو کے پی بلدیاتی الیکشن کی طرح پورے ملک میں شکست کا سامنا کرنا پڑےگا۔

ان کا کہنا تھا کہ کبھی کہا جاتا ہے کہ ملک میں مہنگائی سندھ حکومت کی وجہ سے ہے جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ ملک میں مہنگائی کیوں ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم نے وزرا کو ہدایت کی ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ ملک میں کوئی مہنگائی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کسانوں کی قاتل ہے، آپ نے یوریا کا بحران پیدا کیا، ادویات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کیا، اب مزید نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، عام آدمی اور کسان بجلی کے بل ادا نہیں کر پارہے ، اب حکومت نے سولر پینلز پر بھی نئے ٹٰیکس لگا دیے، دنیا گلوبل چیلنجز سے نمٹ رہی ہے، ماحولیاتی آلودگی کے باعٖث تباہی آرہی ہے تو آپ توانائی کے متبادل ذریعے یعنی سولر پینلز پر بھی ٹیکس لگا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں :5 جنوری کو لاہور سے حکومت کے خاتمے کی کہانی شروع ہو گی، بلاول

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاؤس جانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں، ٹویٹر اور فیس بک کی جماعت نے آئی ٹی سیکٹر پر بھی ٹیکس لگادیا، منی بجٹ سے ایک ہزار سی سی گاڑی کی قیمت میں 100 فیصد اضافہ ہوگا، مہنگائی اور بے روزگاری کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ منتخب حکومت ایسے فیصلے نہیں کر سکتی، آپ نے عام آدمی کی زندگی مشکل میں ڈال دی، جب حکمران عوام میں جائیں گے تو لگ پتہ چل جائے گا ، وفاقی حکومت ہر قومی سانحے میں گم ہوجاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مری اور بلوچستان میں سانحات کے دوران حکومت غائب تھی، حکومت سلائی مشین پر بھی ٹیکس لگارہی ہے، سلائی مشین پر زیادہ نہیں بولوں گا سب کو معلوم ہے، شہباز شریف مفت لیپ ٹاپ بانٹتے تھے، آج نوجوان موبائل، انٹرنیٹ اور لیپ ٹاپ کے ذریعے پیسے کما رہے ہیں، موجودہ حکومت اس ٹیکس لگارہی ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 2018 سے اب تک اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 58 فیصد اضافہ ہوا، ہر صدی میں ایک بحران آتا ہے ہمارے بحران کا نام عمران خان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت ظالم ہے، یہ خیرات اور عطیات پر بھی ٹیکس لگا رہی ہے، ہسپتالوں کے لیے عطیہ کیے گئے سامان اور طبی آلات پر بھی ٹیکس لگائے جارہے ہیں، مختلف بیماریوں کے خلاف دی جانے والی امداد پر بھی ٹیکس لگائے جارہے ہیں، برآمدات کے خام مال پر بھی ٹیکس لگایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں :عمران خان کو خبردار کررہا ہوں گھبرانے کا وقت شروع ہوچکا ہے، بلاول

انہوں نے کہا کہ گزشتہ فصل کے دوران پانی کی غیر منصفانہ تقسیم سے زراعت کو نقصان پہنچایا گیا، حکومت کی پالیساں معیشت کی کمر توڑنے والی ہیں، وفاقی حکومت آفات کے موقع پر غائب ہوجاتی ہے، گزشتہ قدرتی آفات کے دوران تباہی سے متاثرہ علاقوں کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے عوام دشمنی دیکھی ہے، غریب دشمنی دیکھی ہے مگر موجودہ حکومت کے اقدامات ملک دشمنی ہیں، یوریا کا بحران حکومت کا دیا ہوا تحفہ ہے، حکومت کی نااہلی کی وجہ سے چینی، آٹے اور گیس کا بحران پیدا ہوا، گیس بحران کی وجہ سے نہ چائے پی سکتے ہیں نہ گرم پانی سے نہا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے بچوں کے دودھ پر بھی ٹیکس لگا دیا، موجودہ حکمران معصوم بچوں کے منہ سے نوالہ چھین رہے ہیں، آپ کے فیصلے ملک کے لیے تاریخی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔عام آدمی جانتا ہے کہ اس کی جیب پر اس کے پیٹ پر ڈاکا مارا گیا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کیا جائے، تنخواہوں میں مہنگائی میں اضافے کے تناسب سے اضافہ ہونا چاہے۔

’سندھ سے یوریا بیگز کی چوری میں پی ٹی آئی وزرا ملوث ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ آج ہمارا کسان یوریا کی وجہ سے پریشان ہے، حکومت کی وجہ سے زراعت اور یوریا کا بحران ہے اور آنے والے دنوں میں فوڈ سیکیورٹی کا بحران ہوگا، وفاقی حکومت یوریا بحران کا ذمہ دار سندھ حکومت کو قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ سندھ سے ہونے والی اسمگلنگ کی وجہ سے بحران ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ حکومت اسمگلنگ کی ذمہ دار کیسے ہو سکتی ہے، سندھ کے ایک طرف سمندر ہے دوسری طرف بھارت ہے اور بارڈر پر سیکیورٹی فورسز ہیں تو کیسے اسمگلنگ ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں :بلاول بھٹو کا 27 فروری کو کراچی سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے وزرا یوریا بحران میں ملوث ہیں، سندھ کے اسٹاک سے ایک لاکھ 50 ہزار یوریا بیگ چوری کیے گئے اور پی ٹی آئی کے وزرا اس میں ملوث ہیں۔

انہوں نے مانع حمل ادویات پر ٹیکس لاگو کرنے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت آبادی پر کنٹرول کرنے عوام کو روزگار اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہے مگر آبادی پر قابو پانے کے اقدامات پر ٹیکس نافذ کرنے کے لیے تیار ہے

’دفاعی اور جوہری اخراجات دنیا کے سامنے بے نقاب کر رہے ہیں‘

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک بل قومی خود مختاری کے خلاف ہے، یہ ہماری خودمختاری پر حملہ ہے، بل کے ذریعے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دیا جا رہا ہے، بل کے تحت حکومت اپنے ہی بینک سے قرض نہیں لے سکتی

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کی تنخواہ ایک کروڑ 50 لاکھ مقرر کی گئی ہے، اسٹیٹ بینک غلامی بل میں عہدیداروں کو این آر او دیا گیا ہے، بل کے تحت اسٹیٹ بینک کے عہدیداران کو نیب اور دیگر تحقیقاتی اداروں سے تحفظ دیا گیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کے تیار کردہ اسٹیٹ بینک بل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دورحکومت میں بھی ایسے ہی مطالبات کیے تھے لیکن دونوں پارٹیوں نے آئی ایم ایف کے مطالبات منظور نہیں کیے تھے۔

مزید پڑھیں :سلیکٹڈ حکومت ایک بار پھر ہر طرف سے حملہ آور ہے، بلاول

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام ڈیفنس بجٹ اخراجات اسٹیٹ بینک کے ایک اکاؤنٹ میں رکھے جائیں گے جس کو آئی ایم ایف اور دیگر مالی ادارے دیکھ سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے ہم اپنے دفاعی اور جوہری اخراجات دنیا کے سامنے بے نقاب کر رہے ہیں۔

انہوں نے حکومت سے فیصلے کی وضاحت طلب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہم ایک اکاؤنٹ کیوں رکھیں جبکہ پوری دنیا کے لیے ایسا نہیں ہے۔

منی بجٹ عام آدمی کو متاثر نہیں کرے گا، حماد اظہر

وفاقی وفاقی توانائی حماد اظہر نے حکومت کی معاشی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے گزشتہ حکومتوں کو ملک کے معاشی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کی معیشت بہتر کرنے کے لیے اہم فیصلے کیے، جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت ملک دیوالیہ تھا اور ملک کی معیشت کو زوال سے بچانے کے لیے سخت اقدامات کرنے پڑے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر ہم اپوزیشن کی تجاویز مان لیتے تو ملک میں مزید مہنگائی ہوتی، مگر ہم نے سائنٹیفک اور اعداد و شمار کی بنیاد پر کورونا وبا کا مقابلہ کیا، امریکی معاشی جریدے اکنامسٹ نے بھی ہماری کوششوں کو تسلیم کیا جبکہ ہمارے اقدامات کے نتیجے میں ملکی معیشت نے چار فیصد سے زیادہ کی شرح سے ترقی کی۔

مزید پڑھیں : بھارتی جاسوس کو این آر او دینے والے بھٹو کو غدار کہہ رہے ہیں، بلاول بھٹو زرداری

بلاول بھٹو کی تنقید کے جواب میں حماد اظہر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو مہنگائی کے بارے میں بالکل بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کے دور حکومت میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد تھی جبکہ ہماری حکومت میں مہنگائی کی شرح 11 سے 12 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2008 سے 2018 تک پاکستان میں صنعت کاری نہیں ہوئی، پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں انتہائی معاشی بد انتظامی تھی، اور (ن) لیگ نے درآمدات کی پالیسی پر توجہ دی، ہم پی ٹی آئی دور حکومت میں دوبارہ صنعت کاری کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :عدالتی حکم کے باعث گھریلو گیس صارفین کی طلب پوری نہیں کر پارہے، حماد اظہر

وفاقی وزیر توانائی نے منی بجٹ میں لگنے والے ٹیکسز سے ملک میں مہنگائی کی نئی لہر کے اپوزیشن کے مؤقف کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ یہ ٹیکس ایڈجسٹ کر لیے جائیں گے اور ان میں سے اکثر ٹیکسز سے عوام متاثر نہیں ہوں گے، یہ ٹیکسز معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مدد دیں گے۔

ٹیکس اور ڈیوٹیز سے متعلق قوانین میں ترمیم کرنے کے لیے فنانس سپلیمنٹری بل اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2021 کی منظوری ضروری ہے تاکہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 6 ارب ڈالر کی منظوری مل جائے۔

آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ تقریباً ایک ارب ڈالر کی قسط کی تقسیم کا فیصلہ کرے گا۔

اسٹیٹ بینک کے نام سے اسٹیٹ ہٹادیں ، یہ اب ریاست کا بینک نہیں رہا ، آئی ایم ایف کی برانچ بن گیا ،خواجہ آصف

ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی من مانی کا سلسلہ اب مزید نہیں چل سکتا کہ اسٹیٹ بینک آپ بیچ دیں ۔ اسٹیٹ بینک کے نام سے اسٹیٹ ہٹادیں ، یہ اب ریاست کا بینک نہیں رہا بلکہ یہ اب آئی ایم ایف کی برانچ بن گئی ہے ۔ آپ کے وزیراعظم سے زیادہ گورنر اسٹیٹ بینک طاقت ور ہوگیا ہے ۔

سینئر رہنما مسلم لیگ ن خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے عوام نے 2018 میں حکومت کو مینڈیٹ دیا چاہیے جیسے بھی مینڈیٹ دیا گیا،ایک جعلی مینڈیٹ کے لیے ذریعے آپ کو لایا گیا مگر پھر بھی حکومت میں آنے کے بعد آپ کی ذمے داری بنتی تھی کہ آپ اپنی کارکردگی دکھاتے۔ موجودہ حکومت کی نااہلی کے باعث ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے،عوام پریشان ہیں۔

خواجہ اصف نےکہا موجودہ حکومت کو لانے والے بھی آج ان کا بوچھ نہیں اٹھا سکتے ۔ یہ ایوان گواہ ہے کہ جب بھی حکومت کو کوئی بل منظور کرانے کےلیے ووٹوں کی ضرورت پڑھتی ہے تو ارکان کو کس کے فون جاتے ہیں ۔ حکومتی مدد کا یہ سلسلہ تین سال سے جاری ہے ۔کسی بھی مرحلے پر جب حکومت کو ووٹوں کی ضرورت پڑی تو اس کے پاس ووٹ پورے نہیں تھے مگر حکومت کے ووٹ پورے کیے گئے ۔

انہوں نے کہا کہ جب کوئی سیاستدان ، کوئی وزیر ، ایم این اے یہ کہتا ہے کہ مجھ پر پنڈی والوں کا سایہ ہے تو یہ شرم کی بات ہے کہا جاتا ہے کہ ہم ایک پیج پر ہیں ۔ یہ آئین کی ضرورت اور مطالبہ ہے کہ تمام ادارے ایک پیج پر ہوں ۔ اگر کوئی ادارہ ایک پیچ پر نہیں ہے تو وہ آئین کی خلاف ورزی کررہاہے ۔

یہ بھی پڑھیں :شہباز شریف کے خلاف کارروائی حکومت کا خود کو بچانے کے لیے آخری قدم ہوگا، خواجہ آصف

لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ یہ ڈھنڈورا پیٹنا کہ فلاں ہمارے ساتھ ہے فلاں ہمارے ساتھ ہے اس لیے ہمارا اقتدار قائم ہے تو یہ ایک منتخب سیاستدان کے لیے بہت شرم کی بات ہے ۔ یہ اس ایوان کی توہین ہے کہ حکومت سہارا ڈھونڈتی ہے ۔

انہوں نے کہا جب بھی حکومت پر دباو آتا ہے تو یہ سہارا تلاش کرتی ہے ۔ یہ حکومت بچوں کی طرح اپنی لڑائی میں دوسروں گھسیٹتی ہیں ۔ کوئی کب تک آپ کی مدد کرے گا۔ایک دن آپ کے سہولت کار بھی پریشان ہوجائیں گے ۔

انہوں نے کہا حکمران فالودے والے کی بات کرتے ہیں ان کے اپنے چائے پلانے والوں کے اکاونٹ میں کروڑوں روپے ہیں ۔ یہ شہباز شریف کو ٹی ٹی کا طعنہ دیتے ہیں۔الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کی رپورٹ جس کے بعض حصے ابھی خفیہ ہیں جو ابھی سامنے نہیں لائے گئے۔ اس میں ان کے اپنے اکاونٹ میں بتیس کروڑ روپے نکل آئے جو ڈیکلیئر نہیں کیے گئے تھے۔

انہوں نے سوال کیا کہ وہ جو محسن بیگ کہتا ہے کہ میں نے ایک ارب روپیہ دیا وہ ٹی ٹی کہاں گئی ۔ وہ پیسے کہاں گئے ۔ وہ کہتا ہےکہ علیم خان نے بھی پیسے دیے ہیں وہ کہتا ہے کہ جہانگرین ترین نے بھی پیسے دیے ہیں ۔ وہ پیسے کہاں گئے ؟

خواجہ آصف نے الزام لگایا کہ موجودہ حکمران منی لانڈرنگ کررہے ہیں ۔ یہ دن دیہاڑے ڈاکے ڈال رہے ہیں اور لوگوں کو چور کہہ رہے ہیں یہ بہت پرانہ طریقہ واردات ہے کہ دوسروں کو چور کہتے رہو اور خود چوری کرتے رہو یہ اس روایت پر عمل کر رہے ہیں ۔

خواجہ آصف نے کہا کہ یہ احتساب کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ احتساب انصاف پر مبنی نہیں ہے ، قانون کے مطابق انصاف ہوتا تو مال کھانےوالوں کو سزا ملتی ۔ یہاں ہم پر جھوٹے کیس بنائے گئے ۔ آپ کو اپنے چور ڈکیت نظر نہیں آرہے ۔ حکومت کو ہماری آنکھوں کےتنکے تو نظر آرہے ہیں مگر اپنے لوگوں کے شہتیر نظر نہیں آرہے ۔

یہ بھی پڑھیں :ایک ارب ڈالر کی خاطر عمران نیازی نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، شہباز شریف

انہوں نے کہا کہ کل وزیراعظم نے رنگ روڈ فراڈ تسلیم کیا تو کیا انہوں نے اس اسکینڈل میں کسی کوپکڑا ہے ؟ اپوزیشن کے رہنماوں کے نام ای سی ایل پر ہیں لیکن حکومت میں شامل کوئی کرپٹ شخص ای سی ایل پر موجود نہیں ۔ اپوزیشن رہنما روز عدالتوں میں پیش ہو رہےہیں ۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ابھی ایکسپورٹ بات کی گئی آپ نے ایکسپورٹ ایک سو اسی دن کا ادھار کا وقت ہم دیتے تھے آپ نے اس کو ایک سو بیس دن کردیا ۔ اس سے برآمدات میں کمی ہوگی ، اضافہ نہیں ہوگا ۔لوگوں کے آرڈر کینسل ہوں گے ۔ کاروبار کسی اور ملک کی طرف منتقل ہو جائے گا ۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایل سی کا مارجن بھی بڑھادیا ۔آپ کی امپورٹ بڑھ رہی تھی مگر اگر امپورٹ ایکسپورت سے متعلق ہے تو اس کا تو مارجن نہ بڑھائیں ۔ حکومت نے سولر پینل پر بھی ٹیکس لگا دیا۔ اگر آپ کے بجلی سپلائی کے سسٹم پر بوجھ کہیں کم ہورہا تھا آپ نے اس کی بھی حوصلہ شکنی کردی اس پر ٹیکس لگا کر ۔

خواجہ آصف نے مطالبہ کیا کہ اگر موجودہ حکمران کرپٹ نہیں ہیں اگر ان کے پاس منی لانڈرنگ ، چوری ، ڈکیتی کا پیسہ نہیں ہے تو خود الیکشن کمیشن سے کہیں کہ فارن فنڈنگ اسکرورٹنی کمیٹی کی رپورٹ جاری کرے ، اور 32 کروڑ روپے کا حساب دیے ۔ اور نوکروں اور ملازموں کے اکاونٹس میں جو پیسے ہیں اس کا بھی حساب دیں ۔

لیگی رہنما نے کہا کہ ہم اپنا حساب دینے کو تیار ہیں اور گزشتہ چارسالوں سےحساب دے رہے ہیں ۔ ایک ایک پیسے کا حساب دے رہےہیں ۔ جیل میں جا کر بھی کرحساب دیا ۔ یہ حکمران بھی حساب دیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ جب حکمرانوں کے سامنے خوشامدیوں کا ٹولہ اور غیر منتخب لوگ جمع ہوجائیں تو ان کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ موجودہ حکومت کا اقتدار مستحکم اور طویل نہیں ہوسکتا ۔ اب زیادہ دیر نہیں ہے۔ خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں ۔ اب بھی اس وقت بھی ممبران کو فون جارہے ہیں کہ آئیں اور ووٹ دیں بجٹ منظور کرانے کے لیے لیکن جب نوبت یہاں تک آجائے تو تو آپکو چاہیےکہ استعفیٰ دے کر گھر جائیں

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024