• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

شہباز شریف، حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ کیس میں یکم فروری تک ضمانت

شائع January 27, 2022
--فائل/فوٹو: ڈان نیوز
--فائل/فوٹو: ڈان نیوز

لاہور کی مقامی عدالت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے منی لانڈرنگ کیس میں یکم فروری تک ضمانت منظور کرلی۔

لاہور میں اسپیشل جج سینٹرل کی عدالت میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت کے حوالے سے سماعت ہوئی جبکہ شہباز شریف کورونا مثبت ہونے کے باوجود عدالت آئے اور اپنی گاڑی میں بیٹھے رہے۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف، حمزہ شہباز کی ایف آئی اے کے منی لانڈرنگ کیس کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

عدالت نے ایف آئی اے کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی گرفتاری سے روکتے ہوئے یکم فروری تک عبوری ضمانت منظور کر لی۔

لاہور کی مقامی عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو 2،2 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کینسر کے مریض ہیں اور ڈاکٹروں نے کہا ہےکہ اگر کورونا منفی بھی آ جاٸے تو اس کے بعد بھی 7 دن آرام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت لمبی تاریخ دے، جس پر جج نے کہا کہ اگر شہباز شریف یکم فروری کو نہ آ سکیں تو آپ درخواست دائر کر دیں۔

قبل ازیں شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز نے ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کے مقدمے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز کی وساطت سے درخواست دائر کی گئی، جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) اور ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایف آئی اے چالان میں مرکزی ملزم نامزد

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ ایف آئی اے نے بد نیتی پر تحقیقات شروع کی ہیں، جیل میں حراست کے دوران انہیں شامل تفتیش کیا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایف آئی اے کی تحقیقات میں اب تک شہباز شریف کا کوئی بے نامی اکاونٹ سامنے نہیں آیا، منی لانڈرنگ کا کیس احتساب عدالت میں زیر سماعت ہے لہٰذا ایک ہی الزام پر دو کیس نہیں بنائے جاسکتے۔

شہباز شریف، حمزہ شہباز پر کیا الزامات ہیں؟

یاد رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، کرپشن کی روک تھام ایکٹ اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو شوگر اسکینڈل میں منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنا ہے۔

شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔

ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز، حمزہ کیس: ایف آئی اے کو انکوائری رپورٹ جمع کرانے میں تاخیر پر شوکاز نوٹس جاری

ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرایے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپراسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔

ایف آئی اے کے مطابق 28بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔

چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحق ڈار کی مد سے کیا۔

ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف اور حمزہ شہباز (دونوں ضمانت قبل از گرفتار پر) اور سلیمان شہباز (اشتہاری) کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرمکی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2018 سے 2008 عوامیہ عہدوں پر براجمان رہے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024