• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

چینی کے زیادہ استعمال کا ایک اور بڑا نقصان سامنے آگیا

شائع March 23, 2022
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

آپ جتنا میٹھا یا یوں کہہ لیں چینی کھائیں گے، وٹامنز اور منرلز کو اتنا ہی کم استعمال کریں گے، جس کے نتیجے میں ذیابیطس، موٹاپے جیسے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اب اس عادت کا ایک اور بڑا نقصان سامنے آگیا ہے۔

درحقیقت جو افراد زیادہ مقدار میں چینی کا استعمال طویل عرصے تک کردتے ہیں ان میں آٹو امیون امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

یہ بات جرمنی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

آٹو امیون امراض وہ ہوتے ہیں جس میں مدافعتی نظام جسم کے اپنے صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے جس کے باعث مختلف پیچیدگیوں جیسے ذیابیطس ٹائپ 1 اور دائمی ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔

ووتزبرگ یونیورسٹی کی تحقیق میں اس میکنزم پر روشنی ڈالی گئی جو آٹو امیون امراض کا باعث بنتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ مدافعتی خلیات کو بہت زیادہ مقدار میں شوگر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے افعال سرانجام دے سکیں۔

تحقیق میں مدافعتی نظام کے خلیات کے ایک گروپ پر توجہ مرکوز کی گئی تھی جن کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔

یہ ٹی ہیلپر سیلز کا ٹائپ 17 گروپ تھا جو انفلیمٹری پراسیس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

محققین کے مطابق اس نئی دریافت سے آٹو امیون امراض کے علاج کی تھراپی تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سیل میٹابولزم میں شائع ہوئے۔

اس سے پہلے مارچ 2020 میں سوئیڈن کی لیونڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ چینی کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس، موٹاپے، دل کی شریانوں سے جڑے امراض، دانتوں کے مسائل اور متعدد دیگر بیماریوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

تحقیق کے دوران غذا اور مشروبات میں چینی کے استعمال اورغذائی اجزا (وٹامنز اور منرلز) کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔

ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں میں یہ دریافت کیا جاچکا ہے کہ چینی کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں لوگ چربی اور شکر سے بھرپور غذاﺅں کا زیادہ استعمال جبکہ اور صحت کے لیے فائدہ مند غذاﺅں کو کم کھانے لگتے ہیں۔

اس تحقیق میں یہی جائزہ لیا گیا تھا کہ چینی کا زیادہ استعمال کس حد تک لوگوں کو وٹامنز اور منرلز سے دور کرتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیوٹریشن اینڈ میٹابولزم میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ چینی کا بہت زیادہ استعمال درحقیقت ایک علامت ہے جو متعدد امراض کی جانب اشارہ کرتی ہے جو زندگی میں کسی وقت آپ کو اپنا نشانہ بناسکتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر غذا میں چینی کی مقدار زیادہ ہو تو یہ جسم میں جانے کے بعد انتڑیوں میں جذب ہوتی ہے جہاں سے یہ جگر کی جانب سفر کرتی ہے۔

درحقیقت جگر جسم کا واحد عضو ہے جو اس شکر کو مختلف کاموں کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

تاہم جب شکر کی مقدار بہت زیادہ ہو تو جگر کی اسے استعمال کرنے کی گنجائش ختم ہونے لگتی ہے جس کے بعد اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہتا کہ اس اضافی جز کو جگر کی چربی میں بدل دے۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ جب جگر جب شکر کو چربی میں بدلتا ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ انسولین کی مزاحمت کا عارضہ لاحق ہوچکا ہے۔

یہ عارضہ آگے بڑھ کر میٹابولک سینڈروم امراض جیسے ذیابیطس، بلڈ پریشر، لبلبے کے مسائل، خون کی شریانوں میں پیچیدگیاں، کینسر، دماغی تنزلی اور امراض قلب وغیرہ میں بھی بدل سکتا ہے جبکہ جگر کے امراض کا خطرہ الگ لاحق ہوجاتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ چالیس فیصد عام وزن کے افراد کسی ایک میٹابولک سینڈروم مرض کے شکار ہوتے ہیں جبکہ 80 فیصد موٹاپے کے شکار لوگوں میں یہ امراض سامنے آتے ہیں۔

اس سے قبل 2016 میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک اور تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ محض نو دن تک چینی کا بہت کم استعمال ہی صحت کو ڈرامائی حد تک بہتر بناسکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق چینی کا استعمال کم کرنے سے میٹابولک سینڈروم کا خطرہ دور ہوتا ہے جس کے بارے میں بتایا جاچکا ہے کہ وہ کن جان لیوا امراض کا باعث بنتا ہے۔

تحقیق کے دوران یہ بات معلوم ہوئی کہ چینی کا استعمال کم کرنے سے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی سطح کم، جگر کے افعال میں بہتری جبکہ انسولین لیول ایک تہائی حد تک کم ہوگیا۔

اس تحقیق کے دوران رضاکاروں کی غذا میں چربی، پروٹین، کاربوہائیڈریٹس اور کیلوریز کی سطح تو یکساں رہی تاہم چینی کی مقدار کو 28 فیصد سے 10 فیصد تک کم کیا گیا اور مختصر وقت میں ان کی صحت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024