پیمرا کا کیبل گیٹ پر ‘جھوٹی خبر’ نشر کرنے پر اے آر وائی کو شوکاز نوٹس
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اے آر وائی نیوز کو ‘کیبل گیٹ’ تنازع پر امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے مؤقف سے متعلق غیر مصدقہ ذرائع سے ‘جھوٹی/ غیرمصدقہ خبر’ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کردیا۔
شوکاز نوٹس کے مطابق چینل نے شام 6:52 بجے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سفیر کے مؤقف کے حوالے سے ایک خبر نشر کی۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی، قومی سلامتی کمیٹی
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اے آر وائی نیوز نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسد مجید نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مؤقف دہرایا کہ مراسلے کی جزیات اندرونی معاملات میں مداخلت پر تھے اور یہ ‘حقیقت’ تھی کہ مراسلے میں دھمکی آمیز زبان استعمال کی گئی جبکہ حکومتی دباؤ کے باوجود سفیر اپنے مؤقف پر قائم رہے۔
پیمرا نے بتایا کہ اسد مجید کا مؤقف لیے بغیر غیرمصدقہ ذرائع سے ‘جھوٹی/ غیرمصدقہ خبریں’ نشر کرنا ‘اے آر وائی کا ایک ارادی فعل اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کا فعل لگتا ہے’۔
پیمرا نے بتایا کہ ‘یہ قدم مروجہ صحافتی اخلاقیات کے خلاف ہے جہاں قومی سلامتی کمیٹی کا سرکاری بیان جاری کیا گیا تھا اور اس کے باوجود اے آر وائی نیوز نے ناظرین کو گمراہ کرنے کی نیت سے غیرمصدقہ ذرائع پر اکتفا کیا’۔
مزید بتایا گیا کہ جھوٹی خبر اور غیرمصدقہ مواد نشر کرنے سے چینل کے ایڈیٹوریل بورڈ کی کارکردگی اور استعمال کیے گئے گیٹ کیپنگ ٹولز کے حوالے سے تشویش ہے۔
نوٹس میں کہا گیا کہ ‘اس طرح کی جھوٹی خبریں نشر کرنا پیمرا آرڈیننس 2000 کے ترمیمی ایکٹ 2007 کے سیکشن 20 ایف کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا (پروگرامز اینڈ ایڈورٹائزمنٹ) کوڈ آف کندکٹ 2015 کے شقیں تھری ون (آئی کے)، 4 (ون)، 4(ٹو)،4 (فور)، 4(سیون)، 4 (ٹین)، 5، 17 اور 24 ، اس کے علاوہ مختلف اوقات میں چینل کو بتائے گئے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس نمبر 2018 کا 28،کی خلاف ورزی ہے’۔
نوٹس میں اے آر وائی کمیونیکشنز لمیٹڈ کے ایگزیکٹو افسر کو قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے تحریری طور پر شوکاز نوٹس کا 7 روز میں جواب دینے کی ہدایت کی گئی ہے، کارروائی میں جرمانہ عائد کرنا، معطل کرنا سیکشن 29 اور 30 کے تحت لائسنس معطل کرنا اور پیمرا آرڈیننس 2002 کے تحت دیگر اقدامات شامل ہیں۔
مزید بتایا گیا ہے کہ سی ای او ذاتی طور پر یا مجاز نمائندے کے ذریعے پیمرا ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں 29 اپریل کو ساڑھے 11 بجے سماعت میں تحریری جواب کے ساتھ پیش ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے سے پی ٹی آئی کے مؤقف کو تقویت ملی ہے، شاہ محمود قریشی
نوٹس میں بتایا گیا کہ ‘عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں پیمرا کے متعلقہ قوانین قانونی کے مطابق لائسنس رکھنے والے کے خلاف کارروائی ہوگی’۔
‘منفی سیاست’
دوسری جانب گزشتہ روز پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ اے آر وائی کے سربراہ سلمان اقبال دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ اے آر وائی ٹیم ہرقسم کا دباؤ نظر انداز کرنے کے لیے مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کرے اور سچ کے ساتھ کھڑے ہوں۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے اے آر وائی کے ‘گمراہ کن’ دعووں کو مسترد کرتے ہوئے بیان جاری کیا تاہم انہوں نے چینل کا نام نہیں لیا۔
یہ بھی پڑھیں: مراسلہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت ہے، سفارتی جواب دیں گے، قومی سلامتی کمیٹی
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سفیر نے اپنا مؤقف، مراسلے کی جزیات اور پس منظر بیان کیا لیکن سفیر کے مؤقف کے بعد اس طرح کی خبریں نشر کرنے سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ‘منفی سیاست’ہے۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ ‘جھوٹ کو خبر بنا کر پیش کرنا پاکستان کی قومی سلامتی کے مفاد پر چھری پھیرنے کے مترادف ہے’۔
دفترخارجہ نے بھی واقعے سے متعلق بیان جاری کیا اور کہا کہ سفیر نے قومی سلامتی کمیٹی کو مراسلے کا پس منظر اور جزیات سے آگاہ کیا اور اپنا پیشہ ورانہ جائزہ پیش کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ سفیر کی بریفنگ اور جائزہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے جاری کیے گئے بیان کے عین مطابق تھا۔
کیبل گیٹ
جب سے عمران خان کو اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے معزول کیا ہے اس وقت سے عمران خان شہباز حکومت کو 'امپورٹڈ' قرار دیتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کا حصہ ہے، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف باضابطہ طور پر تحریک عدم اعتماد دائر کرنے سے ایک دن قبل 7 مارچ کو سفیر سے موصول ہونے والی کیبل اس سازش کا ثبوت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں، روس کو یوکرین پر حملے فوری روکنے چاہئیں، آرمی چیف
یہ مراسلے کا معاملہ پہلی بار عمران خان نے 27 مارچ کو ایک عوامی ریلی میں عوامی سطح پر اٹھایا تھا۔
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔
تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:‘فوج اور سوسائٹی ’میں تقسیم سے متعلق پروپیگنڈا مہم کا نوٹس
اس کے چند روز بعد 3 اپریل کو عمران خان نے کہا تھا کہ مراسلے میں امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا امور ڈونلڈ لو کے ساتھ پاکستان کے سفیر کی ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں جس میں امریکی عہدیدار نے مبینہ طور پر پاکستان کو دھمکی دی تھی۔
اسد مجید نے مراسلے میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ ڈونلڈ لو نے متنبہ کیا تھا کہ عمران خان کے بطور وزیراعظم برقرار رہنے سے دو طرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، عمران خان نے دعوی کیا تھا کہ امریکا ان کی 'آزاد خارجہ پالیسی' اور دورہ ماسکو سے ناراض تھا۔
عمران خان نے گزشتہ روز لاہور میں پارٹی کے جلسہ عام میں پوری قوم سے ’حقیقی‘ آزادی اور جمہوریت کے حصول کے لیے ملک گیر تحریک کے لیے تیار رہنے کی اپیل کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں صرف پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو کال کر رہا ہوں، آپ سب کو گلیوں، شہروں اور دیہاتوں میں تیاری کرنی ہوگی، آپ کو میری کال کا انتظار کرنا ہوگا جب میں آپ سب کو اسلام آباد بلاؤں گا۔