• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

حمزہ شہباز پنجاب کے 21 ویں وزیراعلیٰ بن گئے

شائع April 30, 2022
حلف برداری کی تقریب میں مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کےدیگر رہنماؤں نے بھی شرکت کی— فوٹو: گورنر ہاؤس
حلف برداری کی تقریب میں مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کےدیگر رہنماؤں نے بھی شرکت کی— فوٹو: گورنر ہاؤس

نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے عہدے کا حلف اٹھا لیا، اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے حلف لیا۔

وزیر اعلیٰ کی تقریب حلف برداری میں مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کےدیگر رہنما بھی شریک ہوئے، اس سلسلے میں گورنر ہاؤس میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی گئی۔

حلف برداری کی تقریب جب جاری تھی تو گورنر پنجاب عمر چیمہ نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ گورنر ہاؤس میں ہونے والی 'غنڈہ گردی' کا نوٹس لیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'غیر آئینی طریقے سے جعلی وزیراعلیٰ کا ڈراما رچایا جارہا ہے'۔

خیال رہے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی کو حمزہ شہباز سے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر حلف لینے کا حکم جاری کیا تھا۔

دوسری جانب چیف سیکریٹری پنجاب کی جانب سے حمزہ شہباز کے عہدے کا چارج سنبھالنے کا اعلامیہ بھی جاری ہوچکا ہے۔

نوٹیفکیشن میں چیف سیکریٹری نے کہا ہے کہ سردار عثمان بزدار اب وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں ہیں، عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ کا آفس استعمال کرنے سے فوری طور پر روک دیا گیا۔

علاوہ ازیں حمزہ شہباز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب اپنے آفس کا چارج سنبھال لیا۔

حمزہ شہباز تقریب حلف برداری کے بعد اپنے دفتر ایٹ کلب پہنچے جہاں انہیں پنجاب پولیس کے دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔

حمزہ شہباز 16 اپریل کو 197 ووٹس کے ساتھ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، تاہم گورنر پنجاب عمر سرفرازچیمہ نے ان سے حلف لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدارنے وزیر اعظم کو استعفیٰ دیا تھا جس کے بعد استعفیٰ منظور نہیں کیا جاسکتا اور یہ غیر آئینی تھا۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ کا حمزہ شہباز کی حلف برداری کا فیصلہ چیلنج کریں گے، پرویز الٰہی

علاوہ ازیں گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان کے سامنے پیش کی جانے والی لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور ’حقائق‘ نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی صداقت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

عمر سرفراز چیمہ نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’میں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کو خط لکھتے ہوئے سیکریٹری کی رپورٹ پر ان کا بیانیہ طلب کیا ہے، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور دیگر حقائق کے بعد حلف برداری کی تقریب منعقد کروانے کے حوالے سے میرا ذہن تذبذب کا شکار ہے‘۔

حمزہ شہباز کی جانب سے حلف اٹھانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا، تاہم دو بار عدالتی فیصلوں کے باوجود بھی حمزہ شہباز سے حلف نہیں لیا گیا تھا۔

21 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ نے عارف علوی کو ہدایت جاری کی تھی کہ گورنر پنجاب موجود نہیں تو حمزہ شہباز کی حلف برداری کے لیے نمائندے اور جگہ کا تعین کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز کے حلف سے متعلق عدالت کا بڑا فیصلہ

گورنر پنجاب اور صدر مملکت کی جانب سے عدالتی احکامات پر عمل درآمد میں ناکامی پر حمزہ شہباز نے ایک بار پھر لاہور ہائی کورٹ سے مداخلت کی استدعا کی تھی۔

تیسری درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے شہریوں اور حمزہ شہباز کے بنیادی حقوق کے لیے ہائی کورٹ معاملے میں مداخلت کرے اور صوبے کو آئینی طریقے سے چلانے کے لیے حلف لینے کا حکم دیا جائے۔

علاوہ ازیں گزشتہ روز عدالت نے حکم دیا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو ہدایت کی ہے کہ وہ کل بروز ہفتہ صبح 11بج کر30 بجے پنجاب کے نومنتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سے حلف لیں گے۔

دریں اثنا دنیا نیوز کے پروگرام ’دنیا کامران خان کے ساتھ‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا تھا کہ اسمبلی میں توالیکشن ہی نہیں ہوا، اسی لیے عدالتوں میں انصاف لینے گئے، فیصلہ آیا ہے اس کو چیلنج بھی کریں گے، صدر مملکت، گورنر پنجاب بھی آئین کے تحت کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب کی حلف برداری: حمزہ شہباز نے تیسری بار عدالت سے رجوع کرلیا

اسپیکر پنجاب اسمبلی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ حمزہ شہباز شریف کے حلف سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

خیال رہے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم کے بعد حکومت کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی استعفیٰ طلب کرلیا تھا گیا۔

عثمان بزدار کے عہدے سے مستعفی ہونے کے پاکستان تحریک انصاف سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کیا گیا تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار تھے۔

اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی کے کچھ اجلاس ہنگامہ آرائی کا شکار ہوکر ملتوی ہوگئے تھے تاہم، بعدازاں عدالتی حکم پر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت اجلاس میں 16 اپریل کو حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔

قبل ازیں اجلاس کے آغاز پر دونوں جماعتوں کے درمیان ہنگامہ آرائی بھی دیکھی گئی جبکہ اس دوران ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے استعفیٰ دے دیا'

بعدازاں ڈپٹی اسپیکر نے حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کا فیصلہ سنایا تھا۔

عثمان بزدار کا استعفیٰ مسترد

دوسری جانب گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے 28 مارچ کو عہدے سے مستعفی ہونے والے سردار عثمان بزدار کا استعفیٰ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب پنجاب کے نو منتخب وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز گورنر ہاؤس عثمان بزدار کے جانشین کے طور پر حلف اٹھانے والے تھے، گزشتہ شام لاہور ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ان سے حلف لینے کی ہدایت کی تھی۔

وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ مسترد ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی میں کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی اور وزرا کو اپنے اپنے عہدے واپس سنبھالنے کی ہدایت بھی دی۔

عدالت کے احکامات کے باوجود حلف لینے سے انکار کرنے والے گورنر نے اس تازہ پیشرفت کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الٰہی کو ایک خط میں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔

اسپیکر کو لکھے گئے خط میں عمر چیمہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ حالیہ پیش رفت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے آئینی بحران کی روشنی میں مجھے لگتا ہے کہ گورنر کے عہدے کے لیے نامناسب ہو گا وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے مبینہ استعفیٰ سے متعلق سچ اور درست حقائق آپ کے علم میں نہ لانے تک استعفیٰ منظور کروں۔

28 مارچ کو عثمان بزدار کی جانب سے استعفیٰ پیش کرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر عمر چیمہ نے نشاندہی کی کہ جس کمیونیکیشن کو استعفے کا نام دیا گیا تھا، وہ وزیر اعظم کے نام ایک پرنٹ شدہ خط تھا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 130 (8) کے تحت کمیونیکیشن کو استعفیٰ کے خط کے تصور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مذکورہ شق کے مطابق استعفے کا خط درست ہونے کے لیے اسے ہاتھ سے لکھا جانا اور گورنر کو مخاطب کرنا ہوتا ہے۔

پنجاب کے سابق وزیر تعلیم مراد راس نے قبل ازیں ایک ٹوئٹ میں اس پیشرفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمر چیمہ نے عثمان بزدار کی کابینہ کو بحال کر دیا ہے اور بعد میں صوبائی کابینہ کا اجلاس بلایا گیا ہے۔

عثمان بزدار کا استعفیٰ

یاد رہے کہ عثمان بزدار نے 28 مارچ کو اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے اہم ترین ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو دیا تھا۔

وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو پیش کردیا ہے اور عمران خان نے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے’۔

بعد ازاں وزیراعظم عمران خان اور اسپیکر پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الہٰی کی ملاقات ہوئی تھی اور اسی ملاقات میں وزیراعظم نے پرویز الہٰی کو نیا وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف پنجاب اسمبلی میں بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔

عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ اسمبلی اجلاس کی ریکوزیشن مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اراکین کے دستخط کے ساتھ سیکریٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی کو جمع کرائی گئی تھی۔

واضح رہے عثمان بزدار نے 20 اگست 2018 کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

جنید طاہر Apr 30, 2022 02:09pm
صرف شریفستان میں ایسا ہوتا ہے

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024