مسلم لیگ(ق) کے ووٹ مسترد، حمزہ شہباز دوبارہ پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب
پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار پرویز الہٰی کو ملنے والے ووٹوں میں سے (ق) لیگ کے تمام 10 ووٹ مسترد کردیے، جس کے بعد حمزہ شہباز 3 ووٹوں کی برتری سے دوبارہ وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے۔
وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کو 179 ووٹ پڑے جبکہ 10 ووٹ مسترد ہونے کے بعد پرویز الہیٰ کو 176 ووٹ ملے اور حمزہ شہباز کو 3 ووٹ کی برتری حاصل ہوئی۔
ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے ووٹوں کی گنتی کے بعد ایوان کو بتایا کہ مجھے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت کی طرف سے خط موصول ہوا ہے۔
دوست محمد مزاری نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا خط پڑھتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے تمام اراکین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے ووٹنگ 22 جولائی کو شیڈول ہے اور پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے تمام اراکین صوبائی اسمبلی کو احکامات دے رہا ہوں کہ وہ حمزہ شہباز شریف کے حق میں ووٹ دیں۔'
انہوں نے کہا کہ اس خط کی کاپی پارٹی کے تمام اراکین کو بھیجی گئی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ اس خط کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے جتنے بھی ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں وہ مسترد ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حافظ عمار یاسر، شجاع نواز، محمد عبداللہ وڑائچ، پرویز الہٰی، محمد رضوان، ساجد احمد خان، احسان اللہ چوہدری، محمد افضل، بسمہ چوہدری اور خدیجہ عمر وہ اراکین ہیں جن کے ووٹ شمار نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد ہوتے ہیں اور 10 ووٹ ختم ہوگئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز الہٰی کو 186 ملے تھے لیکن 10 ووٹ مسترد ہونے کے بعد ان کے 176 ووٹ رہ گئے، جبکہ حمزہ شہباز کو 179 ووٹ ملے اور یوں انہیں 3 ووٹوں کی برتری حاصل رہی۔
ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے رکن راجا بشارت نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ میں 63 اے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ ووٹ کی ہدایت دینے کے لیے کس کو حق حاصل ہے۔
راجا بشارت کے سوال پر ڈپٹی اسپیکر نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق پارٹی کے سربراہ کو حق حاصل ہے، اس پر راجا بشارت نے کہا کہ پارلیمانی لیڈر کو حق حاصل ہے اور آئینی شق پڑھ کر سنائی۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ چوہدری ساجد ہیں اور حکم انہوں نے دینا تھا تاہم ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ عدالت کا حکم پڑھیں لیکن راجا بشارت نے کہا کہ کل مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ ووٹ چوہدری پرویز الہٰی کو دیا جائے گا۔
اسپیکر کو مخاطب کرکے ان کا کہنا تھا کہ اب آپ کے فیصلے کے مطابق امیدوار کی حیثیت ختم کر رہے ہیں اور چوہدری پرویز الہٰی خود اپنے آپ کو ووٹ نہیں دے سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کو اختیار حاصل نہیں ہے تاہم ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ اس خط کے مطابق میں نے چوہدری شجاعت سے فون پر پوچھا تو انہوں نے 3 مرتبہ کہا کہ صحیح ہے اور انہوں نے پارٹی کے سربراہ کے طور پر یہ خط لکھا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ چوہدری پرویز الہٰی کے ووٹ شمار نہیں کیے جارہے ہیں اور اس کے نتیجے میں حمزہ شہباز وزارت اعلیٰ کے کامیاب امیدوار ہیں، جنہوں نے موجود اراکین کی اکثریت حاصل کی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے اس کے بعد اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔
یاد رہے کہ 17مئی کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ شمار نہیں کیا جائے، جبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے، اسد عمر
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کے فوری بعد ٹوئٹ میں کہا کہ ‘آج رات کو ہی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی جائے گی’۔
وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ
قبل ازیں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی زیرصدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس تلاوت کلام پاک اور ترجمے سے شروع ہوا، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے راولپنڈی سے منتخب ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی راجا صغیر سے رکنیت کا حلف لیا۔
اجلاس کے شروع میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن طاہر خلیل سندھو نے اعتراض کیا کہ حلف اور نوٹیفکیشن میں فرق ہوتا ہے، پی پی-167 سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منتخب رکن صوبائی اسمبلی شبیر احمد گجر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ نوٹیفکیشن، الیکشن کمیشن کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوگا، اگر اس کا حلف لیا گیا ہے تو وہ غیر قانونی ہے اور وہ ووٹ نہیں ڈال سکتے۔
انہوں نے ایک اور اعتراض کیا کہ زین قریشی ملتان سے اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں اور صوبائی رکن بھی ہیں، تاہم پی ٹی آئی کے راجا بشارت نے پی ٹی آئی ارکان کے حوالے سے اعتراض دور کیا، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ پہلا ووٹ زین قریشی ڈالیں۔
ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے ووٹنگ ہوئی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کامیاب ہوئے جبکہ پرویز الہیٰ کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ ‘حمزہ شہباز کو 197 ووٹ ملے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 25 اراکین کا ووٹ شمار نہیں کیا گیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز کے پاس اب 172 ووٹ ہیں اور کسی کے پاس 186 ووٹ نہیں ہیں تاہم آئین کے آرٹیکل 130 (4) کے تحت دوبارہ ووٹنگ کے لیے اسمبلی کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ووٹنگ کا عمل پہلے کی طرح ہوگا اور سیکریٹری اسمبلی ووٹنگ کا طریقہ کار بتائیں گے اور اس کے بعد سیکریٹری نے ووٹنگ کا طریقہ کار سمجھایا۔
دوست مزاری نے کہا کہ پرویز الہیٰ اور حمزہ شہباز کی حمایت کرنے والے اراکین مخالف سمت پر چلے جائیں۔
اس سے قبل اسمبلی اجلاس میں کورم پورا کرنے کے لیے گھنٹیاں بجی لیکن اجلاس مقرر وقت 4 بجے شروع نہیں ہوسکا اور تاخیر کا شکار ہوا جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی لابی میں موجود رہے لیکن وہ ایوان میں داخل نہیں ہو رہے تھے۔
تاہم تقریباً 3 گھنٹے کی تاخیر کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دیگر اراکین اسمبلی میں پہنچ گئے اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی صدارت میں اجلاس شروع ہوگیا۔
چوہدری شجاعت کا پرویز الہٰی کی حمایت سے گریز کی رپورٹس
پنجاب اسمبلی میں جب وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل جاری تھا تو دوسری جانب غیرمصدقہ رپورٹس گردش کر رہی تھیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اپنے اراکین کو پرویز الہٰی کو ووٹ دینے سے گریز کرنے کا کہا ہے۔
نجی چینل 'جیو نیوز' سے منسلک معروف صحافی حامد میر نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہٰی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین نے پرویز الہٰی کے بطور پی ٹی آئی امیدوار حمایت کرنے سے انکار کیا۔
مونس الہٰی نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کی مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں متفقہ طور پر اتفاق کیا گیا تھا کہ پرویز الہٰی ان کے امیدوار ہوں گے۔
تاہم پنجاب اسمبلی میں موجود چوہدری پرویز الہٰی سمیت پاکستان مسلم لیگ(ق) کے اراکین نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔
معاملہ عدالت میں جانے کا امکان ہے، سابق اٹارنی جنرل
سابق اٹارنی جنرل اور قانونی ماہر انور منصور خان نے چوہدری شجاعت کی جانب سے مبینہ خط کے تناظر میں نجی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی پارلیمانی پارٹی ووٹنگ میں گئی اور اگر ان کے پاس کوئی واضح ہدایات موجود نہیں تو پھر قانون سازوں کے پاس انتخاب کرنے کا حق ہوگا جس کے بعد پارلیمانی لیڈر کی ہدایات بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انور منصور خان نے کہا کہ اگر پارلیمانی پارٹی پہلے ہی ہدایت دے چکی ہے تو پھر وہی پارلیمانی لیڈر ہو گا جو ایوان میں ہدایات جاری کرے گا، جس سے انحراف کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ پارلیمانی لیڈر صرف اس صورت میں انحراف کا نوٹس لے سکتا ہے جب پارٹی سربراہ انہیں اس معاملے سے آگاہ کرے۔
سابق اٹارنی جنرل منصور علی خان نے کہا تھا کہ آئین میں استعمال ہونے والا لفظ پارلیمانی پارٹی کے تناظر میں ہے نہ کہ پارٹی لیڈر جس سے مراد ’مجموعی طور پر پارٹی‘ ہے اور یہ معاملہ انتہائی اہم ہے جس کے عدالت میں جانے کا امکان ہے۔
تاخیر پر ڈپٹی اسپیکر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کریں گے، فواد چوہدری
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اجلاس میں تاخیر پر تنقید کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کو خبردار کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں غیر ضروری تاخیر سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی ہے، وکلا کو توہین عدالت کی کارروائی کے لیے کہہ دیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اب سے کچھ دیر بعد ڈپٹی اسپیکر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی جارہی ہے'۔
حکومت توہین عدالت کر رہی ہے، بابر اعوان
پی ٹی آئی کے رہنما بابراعوان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ اسمبلی کا اجلاس آج شام 4 بجے ہوگا اور کل نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس مطلوبہ تعداد ہے اور امپورٹڈ حکومت کو پنجاب سے گھر جائے گا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اراکین صوبائی اسمبلی صبا صادق اور عظمیٰ قادری کووڈ-19 سے متاثرہ ہونے کی وجہ سے پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹ (پی پی ای) کے ساتھ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئیں۔
دونوں اراکین کورونا کٹس میں ملبوس ہو کر پہنچیں تو ان کے ساتھ صحت کا عملہ بھی موجود ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا مشہور نے 'جیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے پاس اس وقت 175 اراکین صوبائی اسمبلی ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی تعداد 180 ہے۔
آج ہونے والے انتخاب کے نتائج ملک کی آئندہ سیاست کا رخ طے کریں گے، اس کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے گزشتہ چند روز کے دوران سیاسی حریفوں کی جانب سے جوڑ توڑ کی کوششوں کا سلسلہ گزشتہ شب تک جاری رہا، جب وزیراعلیٰ کے انتخاب میں محض 12 گھنٹے باقی تھے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اپوزیشن اتحاد (پی ٹی آئی اور مسلم لیگ-ق) آج پنجاب اسمبلی میں اپنے مشترکہ امیدوار کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ منتخب کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات یقینی طور پر وفاق میں اتحادی حکومت پر بھی پڑیں گے۔
آج ہونے والے اہم انتخاب سے قبل سابق وزیر اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کی جس میں 186 اراکین صوبائی اسمبلی نے شرکت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز آج عہدے کا حلف اٹھائیں گے
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ انہیں 186 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے جو کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب جیتنے کی مطلوبہ تعداد ہے۔
سابق وفاقی وزیر اور رہنما مسلم لیگ (ق) مونس الہٰی نے بھی کہا کہ حمزہ شہباز کی حکومت کا کھیل ختم ہو چکا ہے کیونکہ ان کے پاس فتح کے لیے ارکان اسمبلی کی درکار تعداد موجود ہے۔
وزیر اعلی کے انتخاب کے لیے ہونے والا یہ مقابلہ تکینکی اعتبار سے رن آف الیکشن ہے، آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق الیکشن کا ایک مرحلہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے اس لیے کسی بھی امیدوار کے لیے اب یہ لازم نہیں ہے کہ وہ 186 ووٹ ہی حاصل کرے، جس امیدوار کے پاس ایک بھی ووٹ زیادہ ہوگا وہ آج وزیراعلی پنجاب منتخب ہوجائے گا۔
مزید پڑھیں: پنجاب کے نومنتخب وزیراعلیٰ کون ہیں؟
سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج شام 4 بجے طلب کیا گیا تھا، حکمراں اور اپوزیشن اتحاد کے ارکان اسمبلی لاہور کے علیحدہ علیحدہ ہوٹلوں میں ٹھہرائے گئے تھے، انہیں آج ووٹنگ کے لیے اکٹھے پنجاب اسمبلی پہنچایا گیا۔
پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے کارکنان حکومت کی جانب سے کسی ممکنہ کارروائی کے پیش نظر اپنے اراکین اسمبلی کی حفاظت کر رہے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انتخاب کے پرامن انعقاد کے لیے پنجاب اسمبلی کے اندر اور باہر فول پروف انتظامات کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب
ایوان میں ہنگامہ آرائی کے خدشات
خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آج ایوان میں مسلم لیگ (ن) اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوسکتی ہے جو 3 ماہ قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے گزشتہ انتخاب کے دوران پی ٹی آئی نے اپنائی تھی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نےاپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کی حکمت عملی کے تحت مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرنے کے لیے چوہدری پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی تھی، اس لیے مارچ میں عثمان بزدار نے وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
16 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کی کارروائی شدید ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئی تھی، اس دوران پرویز الہٰی سمیت بہت سے لوگ زخمی بھی ہوگئے تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایوان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
تاہم اس روز حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے جن میں پی ٹی آئی کے مندرجہ ذیل 25 منحرف اراکین کے ووٹ بھی شامل تھے:
- راجہ صغیر احمد
- ملک غلام رسول
- سعید اکبر خان
- محمد اجمل
- عبدالعلیم خان
- نذیر احمد چوہان
- محمد امین ذوالقرنین
- ملک نعمان لنگڑیال
- محمد سلمان
- زاور حسین وڑائچ
- نذیر احمد خان
- فدا حسین
- زہرہ بتول
- محمد طاہر
- عائشہ نواز
- ساجدہ یوسف
- ہارون عمران گل
- عظمیٰ کاردار
- ملک اسد علی
- اعجاز مسیح
- محمد سبطین رضا
- محسن عطا خان کھوسہ
- میاں خالد محمود
- مہر محمد اسلم
- فیصل حیات
بعد ازاں پی ٹی آئی کے یہ 25 ارکان اسمبلی (جن میں 5 خصوصی نشستیں بھی شامل ہیں) پارٹی سے انحراف کی وجہ سے ڈی سیٹ کر دیے گئے تھے، جس کے بعد ایوان میں حمزہ شہباز نے اکثریت کھو دی تھی کیونکہ ان کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 197 سے کم ہو کر 172 رہ گئی تھی۔
یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہوگا۔
ڈی سیٹ کیے جانے والے ارکان کی 25 نشستوں میں سے 5 مخصوص نشستوں کے علاوہ باقی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 15 نشستیں جیت کر پی ٹی آئی نے واضح کامیابی حاصل کی۔
گزشتہ روز چوہدری پرویز الہٰی کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹی فیکیشن کے بعد پی ٹی آئی کے نومنتخب 15، مسلم لیگ (ن) کے 3 اور ایک آزاد رکن نے اسمبلی کے ارکان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا جو آج وزیر اعلیٰ کے دوبارہ انتخاب کے لیے ووٹنگ میں حصہ لیں گے۔
پی ٹی آئی کے 15 ارکان اسمبلی کے حلف اٹھانے کے بعد ایوان میں تحریک انصاف کے کُل اراکین کی تعداد 178 جبکہ مسلم لیگ (ق) کے ارکین کی تعداد 10 ہے، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین کو ملا کر تعداد 188 ہے تاہم ایک رکن اسمبلی بیرون ملک موجود ہیں۔
پی ٹی آئی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری اپنا ووٹ نہیں ڈالیں گے کیونکہ وہ آج اجلاس کی صدارت کریں گے لہذا اپوزیشن اتحاد کے کُل ووٹوں کی تعداد 186 ہوگی۔
ایوان میں اکثریت کے دعوے، ہارس ٹریڈنگ کے الزامات
گزشتہ چند روز کے دوران حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اکثریت کے دعووں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
پی ٹی آئی کارکنان نے لاہور کے لبرٹی چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا جبکہ پارٹی قیادت نے گزشتہ 2 روز میں سربراہ پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی لاہور میں موجودگی کی شدید مذمت کی۔
اس دوران انہوں نے صدر مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین سے ملاقاتیں کیں، اپوزیشن کا خیال ہے کہ آصف زرداری انتخابی عمل میں ہیر پھیر کر رہے ہیں اور اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کو حمزہ شہباز کی حمایت کے عوض بھاری پیشکش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب! ‘عوام کا چھینا ہوا مینڈیٹ لوٹا دیا گیا’
سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے دعویٰ کیا کہ سندھ ہاؤس میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ لاہور میں دوبارہ نظر آرہی ہے، اراکین صوبائی اسمبلی کو 50 کروڑ روپے تک کی پیش کش کرکے خریدا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ جو کچھ پنجاب میں ہو رہا ہے، سپریم کورٹ کو اس کی انکوائری کرنی چاہیے، رانا ثنااللہ، عطا تارڑ اور آصف زرداری کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جائے اور ان پر الیکشن میں خرید و فروخت کے مقدمات چلائے جائیں۔
پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی فیاض الحسن چوہان نے بھی کہا کہ آصف زرداری ’شیطانی کھیل‘ کھیل رہے ہیں، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ گھناؤنا کھیل بند نہ کیا گیا تو پی ٹی آئی کے کارکن بلاول ہاؤس کا گھیراؤ کریں گے۔
مزید پڑھیں: چوہدری پرویزالہٰی کے خلاف 5 کے بجائے 50 ارکان ضمیر کی آواز پر ووٹ دے سکتے ہیں، رانا ثنااللہ
انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی وفاداریاں خریدنے کے لیے کھربوں روپے کی کرپشن کی لیکن صرف ایک کو ہی خرید سکے۔
پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی میاں مسعود پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو اپنی وفاداری بیچ کر ملک چھوڑ دیا۔
دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی مولانا الیاس چنیوٹی نے الزام عائد کیا کہ انہیں پی ٹی آئی نے وفاداری تبدیل کرنے کے لیے 10 کروڑ روپے کی پیشکش کی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ انہیں لاہور ہائی کورٹ نے قانون کے مطابق الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی ہے اور وہ وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے شفاف اور منصفانہ انتخاب کو یقینی بنائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: 50 کروڑ روپے تک آفر کرکے اراکین اسمبلی کو خریدا جارہا ہے، عمران خان کا دعویٰ
دریں اثنا آصف علی زرداری نے ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے لیے اپنی پارٹی کی واضح حمایت کا وعدہ کیا۔
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بھی کہا کہ تحریک انصاف کی صفوں میں ایسے لوگ جن کا ضمیر زندہ ہے اور شعور رکھتے ہیں وہ چوہدری پرویز الہٰی کے لیے وزیر اعلیٰ کے انتخابات میں ووٹ نہیں دیں گے۔
اپوزیشن کے ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہم اپنے تمام سیاسی آپشنز کو بھرپور طریقے سے استعمال کریں گے۔
اس سے قبل وہ علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ ووٹنگ کے روز اپوزیشن کے تقریباً 5 سے 7 ارکان اسمبلی غائب ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب: عمران خان کا دورہ کراچی ملتوی، آج لاہور پہنچیں گے
پولنگ کا عمل آج سہ پہر 4 بجے کے بعد شروع ہوگا، ایوان میں کسی رکن کو موبائل فون لانے یا گیلری میں کسی مہمان کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ آج ہونے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں اپنی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالنے کے لیے تمام صوبائی اسمبلی کے اراکین کا تحفظ یقینی بنائیں۔
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے ’آزاد اور منصفانہ' انتخاب کو یقینی بنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں لاہور ہائی کورٹ نے قانون کے مطابق الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔