• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

وفاقی وزارت داخلہ نے 'اے آر وائی نیوز' کا این او سی منسوخ کردیا

شائع August 12, 2022 اپ ڈیٹ August 13, 2022
اے آر وائی کی جانب سے حکومتی اقدامات کی مذمت کی گئی--فوٹو: ڈان
اے آر وائی کی جانب سے حکومتی اقدامات کی مذمت کی گئی--فوٹو: ڈان

وفاقی وزارت داخلہ نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' کا نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) منسوخ کردیا جبکہ چینل کی انتظامیہ نے حکومتی اقدام کی مذمت کی ہے۔

وفاقی وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ 'اے آر وائی کمیونیکیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ (اے آر وائی) نیوز کو جاری این او سی منسوخ کردیا گیا ہے اور اس پر فوری عمل درآمد ہوگا'۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ کا اے آر وائے نیوز بحال کرنے کا حکم

نوٹیفیکیشن کے مطابق ’ایجنسیوں کی جانب سے ناسازگار رپورٹ کی بنیاد پر اے آر وائی نیوز کو جاری کیا جانے والا این او سی اگلے احکامات آنے تک فوری طور پر منسوخ کیا جا رہا ہے۔‘

اے آر وائی کی انگریزی ویب سائٹ میں اس اقدام کو پاکستان مسلم لیگ(ن) کی سربراہی میں اتحادی حکومت کی جانب سے نیوز چینل سے منسلک 4 ہزار سے زائد میڈیا کارکنان کا معاشی قتل قرار دیا۔

چینل نے ردعمل میں کہا کہ یہ صحافی برادری کے خلاف ایک نیا قدم ہے اور یہ بغیر کسی نوٹس کے کیا گیا ہے۔

چینل کی انتظامیہ نے مزید بتایا کہ انتظامیہ چینل کی نشریات معطل کرنے کے اقدام کی مذمت کرتی ہے، وفاقی حکومت چینل کو نشانہ بنا رہی ہے۔

خیال رہے کہ دو روز قبل سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے نیوز چینل کو جاری کیے گئے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کی مدت میں 15 اگست تک کی توسیع کرتے ہوئے اے آر وائی نیوز کو کیبل میں بحال کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

عدالت نے چینل کے وکیل کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما شہباز گل کو مزید عدالتی احکامات تک چینل میں پیش نہ کرنے کی یقین دہانی پر پیمرا کو چینل کا لائسنس معطل یا منسوخ کرنے سے 17 اگست تک روک دیا تھا۔

جسٹس ذوالفقار احمد خان کی سربراہی میں سنگل جج بینچ نے کہا تھا کہ شوکاز نوٹس کا مناسب جواب جمع کرانے پر پیمرا چینل کی گزارشات پر غور کرنے کے لیے آزاد ہوگا اور مدعی کو اس بات کو یقینی بنانے کا منصفانہ موقع دیا جائے گا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں لیکن 17 اگست تک کوئی حتمی حکم جاری نہیں کیا جائے گا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گِل کی جانب سے اے آر وائی سے بات کرتے ہوئے متنازع بیان کے سلسلے میں درج مقدمے کے تحت چینل کے سینیئر نائب صدر کو گرفتار کیا گیا تھا تاہم سندھ ہائی کورٹ نے ان کا نام مقدمے سے خارج کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا تھا۔

پی ٹی آئی رہنما کے متنازع بیان پر 8 اگست کو کراچی کے علاقے میمن گوٹھ کے پولیس اسٹیشن میں درج مقدمے میں اے آر وائی کے سی ای او سلمان اقبال، اینکر پرسنز ارشد شریف، خاور گھمن اور عماد یوسف کو مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کا متنازع بیان، عماد یوسف کا نام مقدمے سے خارج کرنے کا حکم

ایف آئی آر ریاست کی جانب سے میمن گوٹھ تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر انسپکٹر عتیق الرحمٰن نے درج کروائی تھی جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 121، 505، 153، 153-اے، 131، 124-اے، 120، 34 اور 109 شامل کی گئی تھیں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ اے آر وائی نیوز کی جانب سے 8 اگست کو نشر ہونے والے نیوز بلیٹن کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں شہباز گل نے پاک فوج کے خلاف نفرت انگیز ریمارکس ادا کیے۔

ایف آئی آر میں الزام لگایا تھا کہ پروگرام میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کر کے پی ٹی آئی اور اے آر وائی نیوز واضح طور پر مسلح افواج کے ان حصوں کے درمیان تقسیم پیدا کر رہے ہیں جنہوں نے پارٹی سے وفاداری کا اظہار کیا اور جو وفاداری کا اظہار نہیں کرتے۔

شکایت کنندہ نے مزید الزام لگایا تھا کہ شہباز گل مسلح افواج میں نفرت اور بغاوت کے بیج بو رہے ہیں، وہ سرکاری افسران کو حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے کے خلاف دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔

شکایت کنندہ نے مزید کہا کہ یہ ایک پہلے سے سوچی سمجھی، منظم سازش ہے جسے سندھ اور دیگر صوبوں میں مسلح افواج اور سرکاری محکموں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ یہ واضح ہے کہ پروگرام میں حصہ لینے والے افراد نے پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور سی ای او کے ساتھ مل کر سازش کی تھی اور ان تمام افراد کی طرف سے کیے گئے اس عمل کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

سیاست دانوں، صحافیوں کا اظہار مذمت

حکومت کی جانب سے اے آر وائی کا لائسنس منسوخ کرنے اقدام پر سیاست دانوں اور صحافیوں نے مذمت کی۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'اے آر وائی کی سیکیورٹی کلیئنر منسوخ، اس کی 101 معقول وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن سوال ہے کہ منسوخی کا اہل کون ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'کیسے اور کس طرح قواعد پر عمل کیا گیا جواب دینا ہوگا، بے ربط طریقے سے ریاستی طاقت کا استعمال بیک فائر ہوگا'۔

معروف صحافی طلعت حسین نے 'سنجیدہ معاملہ' قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ 'گل اقساط کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں'۔

کالم نگار شمع جونیجو نے کہا کہ 'یہ ایک انتہائی قدم ہے' اور کہا کہ 'اے آر وائی نیوز کا این او سی ایجنسیوں کی منفی رپورٹس کے باعث منسوخ کردیا گیا ہے'۔

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد عمر نے کہا کہ 'تاریخ کے دھارے کو بزدل غیرقانونی اقدامات سے نہیں روکا جاسکتا ہے'۔

پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما فرخ حبیب نے اس اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ حکومت عوام دشمن اقدامات سے ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024