دریائے کابل میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب، نوشہرہ کے عوام سے انخلا کی اپیل
خیبر پختونخواہ میں سیلاب سے ہلاکتوں اور تباہی کا سلسلہ ہفتے کے روز بھی جاری رہا جہاں سوات میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کے نتیجے میں مزید 3 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ نوشہرہ میں حکام نے دریائے کابل میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے سبب عوام سے انخلا کی اپیل کی ہے۔
غیر معمولی بارشوں کے پیش نظر صوبے کے متعدد علاقوں میں رین ریمرجنسی نافذ کردی گئی ہے جہاں ان بارشوں اور سیلاب نے ملک کے بیشتر حصوں کو بحران میں دھکیل دیا ہے۔
آج ہونے والی اہم پیشرفت
• سوات میں سیلاب، لینڈسلائیڈنگ سے مزید 12 افراد جاں بحق، اموات کی مجموعی تعداد24 ہوگئی
• پشاور کور کے جوانوں نے کمراٹ میں پھنسے 22 افراد کو نکال لیا
• خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے پھنسے سیاحوں کو نکالنے دور دراز علاقوں میں کھانا پہچانے کے لیے ہیلی کاپٹر مقرر
• نوشہرہ میں اونچے درجے کے سیلاب کے خدشے پر کے پی میں علاقوں میں لوگوں کو منتقل کرنے کا عمل جاری، جہاں دریائے کابل میں پانی سطح 3 لاکھ کیوسک عبور کرگئی
• اپردیر، کالام اور سوات میں گزشتہ 3 دنوں سے 150 سیاحوں کے پھنسےہونے کی اطلاعات
• پیسکو کو صوبے کے تمام اضلاع میں بلاتعطل بجلی فراہمی کی ہدایت
• وزیراعظم شہباز شریف کا ریلیف اور امدادی کاموں کا جائزہ لینے کے لیےسندھ کے ضلع سجاول کا دورہ، سیلاب متاثرین کے لیے 38 ارب روپے کا اعلان
• آرمی چیف کا بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ، فوج کے جوانوں نے ملک بھر میں ریلیف کا کام تیز کردیا
• وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا سوات اور لوئر دیر کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ، متاثرین کے لیے ایک ارب روپے کا اعلان
• متاثرہ آپٹیکل فائبر اور بجلی کے تعطل سے خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس متاثر ہوئی، پی ٹی اے
• گلگت بلتستان کو سیلاب کے دوران 10 ارب روپے کا مالی نقصان، صوبائی وزیر اطلاعات
• پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا سیلاب متاثرین کے لیے عطیات جمع کرنے کے لیے ٹیلیتھون کا اعلان
اس وقت پاکستان کا نصف سے زیادہ حصہ زیر آب ہے اور مون سون کی غیر معمولی بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
تازہ ترین اندازوں کے مطابق تقریباً 300 بچوں سمیت ایک ہزار افراد بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جہاں اب تک سیلاب اور بارشوں سے تقریبا 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
سوات میں اموات اور دیر میں سیاح پھنس گئے
سوات میں رین ایمرجنسی کے اعلان کے ایک دن بعد ہفتے کو ضلع کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ابرار وزیر نے بتایا کہ مختلف علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب سے مجموعی طور پر24 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
جمعہ کو ضلع میں بارشوں، سیلاب اور متعلقہ واقعات سے 12 اموات ہوئی تھیں۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے ایک بیان میں کہا کہ سیلاب سے اب تک 130 کلومیٹر پر پھیلی سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے اور 28 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں اور اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق 233 گھر، 41 اسکول، 50 سے زائد ہوٹل اور 24 پل سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ضلعی محکمہ آب پاشی کے مطابق شام کے وقت ایک لاکھ 21 ہزار 326 کیوسک پانی تھا جبکہ بحالی اور امداد کی کارروائی بھی شروع کی جاچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد متعدد علاقوں میں ویکسینیشن کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے اور متاثرہ علاقوں میں مویشیوں کے علان کے لیے محکمہ لائیو اسٹاک کی ٹیمیں پہنچ گئی ہیں۔
سرکاری عہدیدار نے کہا کہ نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔
لوئر دیر کے ایک سابق رکن صوبائی اسمبلی محمد علی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ وادی کمراٹ میں تقریباً 15 سیاح پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملاکنڈ کے کمشنر سیاحوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر بھیج رہے ہیں۔
لوئر دیر میں بھی کئی دیگر سیاحوں کے پھنسے ہونے کی اطلاعات ہیں۔
خیبرپختونخوا کے سیکریٹری انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز ارشد خان کا کہنا تھا کہ صوبے میں 5 لاکھ سے زائد پانی کا بہاؤ ہے۔
سوات میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام متاثرہ علاقوں میں ریلیف کا کام شروع کردیا گیا ہے جبکہ سڑکوں کا انفراسٹرکچر کی بحالی کا کام ہنگامی بنیاد پر جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک 10 ٹن راشن تقسیم کردیا گیا ہے اور حکومت نے پاک آرمی سے مزید ہیلی کاپٹر بھی طلب کرلیے۔
ہفتے کی شام کو پہلا ہیلی کاپٹر کبل سے کالام کے لیے روانہ ہوا اور ڈپٹی کمشنر جنید خان نے بتایا کہ اس کے ذریعے کالام میں پھنسے ہوئے سیاحوں کو واپس لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی یہ پہنچیں گے تو سیاحوں کو خصوصی مقامی ٹرانسپورٹ کے ذریعے گھر بھیج دیے جائیں گے۔
ڈپٹی کمشنر اکمل خان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ اطلاعات ہیں کہ اپر دیر میں بھی 30 سیاح پھنسے ہوئے ہیں، وہ بخیر و عافیت ہیں اور انہیں ہوٹلوں میں رکھا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 15 افراد ہوٹل کے اسٹاف کے ساتھ دریا کے بائیں طرف پھنسے ہوئے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ افسر (ڈی ڈی ایم او) مینہ فاطمہ نے بتایا کہ شانگلہ میں ضلعی انتظامیہ نے تمام تحصیلوں میں امدادی اشیا بھیجنا شروع کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضلعی ریونیو افسر علاقے میں موجود ہے اور نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اسی طرح ریسکیو 1122 کے عہدیداروں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ کوہستان میں دریائے رانولیا میں پھنسے 7 افراد کو بھی بچالیا گیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری بیان کے مطابق کمراٹ سے 22 افراد کو پشاور کور کے جوانوں سے رابطے کے بعد وہاں سے نکال لیا گیا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے خاندان سیلاب کی وجہ سے کمراٹ میں پھنسے ہوئے تھے اور خراب موسم کی وجہ سے ان کو وہاں سے نہیں نکالا جاسکا۔
بیان میں کہا گیا کہ ان خاندانوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا گیا اور ان خاندانوں کو پہاڑوں میں محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے، وہ لوگ محفوظ ہیں اور موسم بہتر ہوتے ہی انہیں فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نکال لیا جائے۔ مزید بتایا گیا کہ گراؤنڈ پارٹی بھی خوازہ خیلہ سے ان کو نکالنے کے لیے تیار ہے۔
دریائے کابل میں اونچے درجے کا سیلاب
ملک بھر میں ہونے والے تباہ کن بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کے نتیجے میں دریائے کابل میں پانی کا بہاؤ تین لاکھ کیوسک سے زیادہ ہونے کے سبب دریا میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب آ گیا ہے اور نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنر میر رضا اوزگن نے ہفتے کے روز ضلع کے مکینوں سے ایک مرتبہ پھر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی اپیل کی ہے۔
ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق سیلاب نے ضلع میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی اور کئی دیہات زیر آب آ گئے۔
جمعہ کو صوبہ خیبر پختونخواہ صوبے کے کچھ حصوں میں تباہی ہوئی کیونکہ دریائے کابل اور دریائے سوات میں 'انتہائی اونچے درجے کے سیلاب' کا سامنا کرنا پڑا، جس سے حکام نے نشیبی علاقوں سے انخلا کا عمل شروع کر دیا اور سوات اور دیگر اضلاع میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے۔
اس کے بعد دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہونے اور دریائے سوات کے بہاؤ کو منظم کرنے والے منڈا ہیڈ ورکس کا ایک حصہ گرنے کے سبب سیلاب کے بڑھتے ہوئے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے نوشہرہ اور چارسدہ سے مکینوں کے انخلا کے لیے اعلانات کیے جا رہے ہین جبکہ اس سلسلے میں حکام بھی کوششیں کررہے ہیں۔
نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنر نے آج صبح دوبارہ انخلا کی اپیل کی، ایک بیان میں کہا کہ ضلع میں دریائے کابل میں بہت اونچے درجے کا سیلاب آیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ نوشہرہ میں دریائے کابل میں پانی کی سطح ڈھائی لاکھ کیوسک سے تجاوز کر گئی ہے، پانی کی سطح مزید بڑھ رہی ہے۔
خیبر پختونخوا میں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ نوشہرہ میں دریا میں پانی کی سطح دو لاکھ 74ہزار 274 کیوسک تک بلند ہو چکی ہے، ویرک میں دریا کی سطح آب ایک لاکھ 30 ہزار 364 کیوسک کیوسک تک پہنچ گئی ہے۔
ادھر ڈپٹی کمشنر نوشہرہ نے شہریوں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور انہیں وہاں منتقل ہونے کی تاکید کی گئی ہے۔
جمعہ کو دریائے کابل اور دریائے سوات میں بہت سے مقامات پر 'انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے سبب خیبر پختونخوا کے کئی دیگر علاقوں میں بھی انخلا شروع کر دیا گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ جمعہ کی رات تک چارسدہ میں تقریباً 2لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
دوپہر کے وقت سیلابی پانی ضلع کے پیرسباق علاقے میں داخل ہوا جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے شہریوں سے ایک بار پھر نقل مکانی کی اپیل کی۔
نوشہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃ العین وزیر نے فون پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ وہ فوج اور ریسکیو ٹیم کے ساتھ علاقے میں موجود ہیں اور انہوں نے انخلا شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تک 50 خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے مزید کہا کہ پیرسباق میں دریائے کابل کے کنارے حفاظتی پشتے ٹوٹ گئے ہیں جس کے نتیجے میں پانی گھروں اور بازاروں میں داخل ہو گیا ہے۔
دیگر علاقوں کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل رات سے انخلا کا عمل جاری ہے اور اب تک پشتون گاڑی کے علاقے سے 700 خاندانوں کو امدادی کیمپ میں منتقل کیا جا چکا ہے جبکہ پبی سے مزید 300 کو نکالا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اولین ترجیح جان بچانے کے لیے امدادی کارروائیاں ہیں، انتظامیہ نے سیلاب سے متاثرہ افراد کو خوراک کے پیکج اور دیگر امدادی اشیا بھی فراہم کی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے کئی دیگر علاقوں سے انخلا کا عمل جمعہ کو شروع کردیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے دریائے کابل اور دریائے سوات میں بہت سے مقامات پر اونچے درجے کے سیلاب کا سامنا کرتے ہوئے شدید تباہی کا سامنا کیا۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اس وقت ڈان کو بتایا کہ چارسدہ میں جمعہ کی رات تک تقریباً 2لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور خان جھگڑا نے آج مقامی رہنماؤں کے ہمراہ چارسدہ کا دورہ کیا۔
ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ضلع سے ایک لاکھ 83ہزار افراد کو نکالا جا چکا ہے، نوشہرہ میں بھی اسی طرح کا آپریشن جاری ہے۔
پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان آج سوات اور لوئر دیر کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ بھی کریں گے۔
وہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور جاری امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیں گے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق پشاور میں ہفتہ کو بھی ریلیف اور ریسکیو آپریشن جاری رہا۔
ریسکیو 1122 کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شہر میں سیلاب سے میاں گجر، جالا بیلہ، تخت آباد اور دیگر علاقے متاثر ہوئے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ریسکیو 1122 کی جانب سے پشاور اسلام آباد موٹر وے پر ایک ریلیف کیمپ لگایا گیا ہے۔
جمعہ کی رات تک صوبے میں بارشوں سے آنے والے سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد 42 ریکارڈ کی گئی۔
صوبائی حکومت نے ہفتے کے روز ٹوئٹ میں کہا کہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان میں ریسکیو 1122 کی ٹیموں نے پانی گھروں میں داخل ہونے کے بعد کشتیوں میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ انتظامیہ سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔
گلگت بلتستان میں درجنوں جاں بحق، گھر، روڈ بہہ گئے
گلگت بلتستان میں بھی بارش اور سیلاب سے نقصانات ہوئے جہاں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ظہیرالدین بابر کا کہنا تھا کہ بارش اور سیلاب نے گلگت اور بلتستان کو بھی نہیں بخشا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران خطے میں بارش اور سیلاب کے 110 واقعات میں 17 افراد جاں بحق اور 3 زخمی ہوئے، گزشتہ روز بھی غذر میں سیلاب سے 6 افراد جاں بحق ہوئے۔
ظہیرالدین بابر نے کہا کہ بارشوں کی وجہ سے جاں بحق افراد میں سے 12 کا تعلق غذر، 3 کا تعلق دیامر اور ہنزہ سے تھا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ اب تک 540 مکانات مکمل طور پر تباہ اور 88 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے، 53 پل، 22 ہائیڈروپاور پلانٹس، مختلف اضلاع میں 49 سڑکیں، 55 آب پاشی کے چینلز اور 78 پانی کی ٹینکیاں بھی تباہ ہوگئیں۔
گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات فتح اللہ کا کہنا تھا کہ خطے میں 10 ارب مالیت کا نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے دیامر، اسکردو اور گلگت میں ریلیف سینٹر قائم کردیا ہے تاکہ عوام سے عطیات جمع کیے جاسکیں اور مستحقین تک پہنچایا جائے۔
بلوچستان کی صورتحال
بلوچستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں تھی جہاں صوبے کو اس سال مون سون کی تباہ کن بارشوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے ملانے والی شاہراہیں جمعہ کو غیر فعال رہیں کیونکہ مسلسل بارشوں اور سیلاب نے حکام کو تباہ شدہ راستوں کی مرمت کرنے کی اجازت نہیں دی۔
ادھر دریائے بولان میں طغیانی کے باعث کوئٹہ-سکھر شاہراہ پر ایک اور پل کو بھی نقصان پہنچا۔
کوئٹہ اور اس کے مضافات میں 36 گھنٹے تک جاری رہنے والی بارش کے باعث صوبائی دارالحکومت کے بیشتر علاقے زیر آب آگئے جس سے نظام زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا اور سینکڑوں خاندان بے گھر ہو گئے۔
نواں کلی، چشمہ اچوزئی، پشتون آباد، ہزارہ ٹاؤن، فیصل ٹاؤن، سریاب کے مختلف علاقوں، سبزل روڈ اور مغربی اور مشرقی بائی پاس کے علاقوں میں سیلابی پانی نے لوگوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔
نصیر آباد ڈویژن میں صورتحال مزید بگڑ گئی کیونکہ بولان، لہری اور ناری ندیاں نصیر آباد، جعفرآباد، جھل مگسی اور صحبت پور اضلاع میں حفاظتی بند سے ٹکرا گئیں، صابری ڈیم ٹوٹنے سے کم از کم 100 دیہات زیر آب آگئے۔
صوبے کی مشکلات میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب دارالحکومت کو ایل پی جی کی شدت قلت کا سامنا ہے کیونکہ حکام جمعہ کو دریائے بولان میں سیلاب سے بہہ جانے والی گیس کی دو پائپ لائنوں کی مرمت نہیں کر سکے۔
کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر قصبوں کو گیس سپلائی کرنے والی 12 انچ قطر کی پائپ لائن ضلع بولان کے علاقے بی بی نانی کے قریب بہہ گئی جہاں اس سے قبل گزشتہ ہفتے 24 انچ کی مین پائپ لائن بھی سیلاب میں بہہ گئی تھی۔
اس کے بعد لوگوں کی لمبی قطاریں ایل پی جی ڈیلرز کی دکانوں کے باہر دیکھی گئیں۔
ایک رہائشی طارق علی نے ڈان کو بتایا کہ ہم یہاں دو گھنٹے سے لمبی قطار میں ہیں لیکن گیس دستیاب نہیں ہے۔
دکانداروں کا کہنا تھا کہ وہ مارکیٹ میں ایل پی جی کی کمی کی وجہ سے ایل پی جی ڈیلرز کو اضافی رقم ادا کر رہے ہیں، ڈیلرز ایران اور کراچی سے گیس درآمد کر رہے تھے لیکن شاہراہوں کی بندش کے باعث ایل پی جی کی سپلائی معطل ہو گئی ہے۔
موسلا دھار بارشوں کے باعث بلوچستان کے کئی علاقوں میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس درہم برہم ہوگئی۔ جمعہ کی رات تک صوبے کے 10 اضلاع میں خدمات جزوی طور پر بحال کر دی گئیں۔
حکومت کا فوج تعینات کرنے کا فیصلہ
بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے ملک کے کئی حصوں میں کئی ہفتوں سے تباہی مچا رکھی ہے اور جمعہ کو صورتحال مزید خراب ہونے پر حکومت نے آفت زدہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں سویلین حکام کی مدد کے لیے تمام صوبوں میں فوج کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں کی صحیح تعداد اور تعیناتی کے علاقوں کا تعین متعلقہ صوبائی حکومتیں ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ اور جنرل ہیڈ کوارٹرز کی مشاورت سے کریں گی۔
نوٹیفکیشن میں لکھا گیا ہے کہ مذکورہ تعیناتی کی ڈی ریکوزیشن کی تاریخ کا فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان باہمی مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
دریں اثنا، خراب موسم کی وجہ سے جمعہ کو ملک کے کئی علاقوں میں فلائٹ اور ٹرین آپریشن معطل رہے۔
حکومت نے تباہی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مدد طلب کی ہے اور جب کہ کئی عالمی اداروں اور ممالک نے امدادی کاموں کے لیے فنڈز دینے کا وعدہ کیا ہے البتہ حکومت کی اپیل پر بین الاقوامی برادری کا ردعمل اب تک سست رہا ہے۔
آرمی چیف کا بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، جہاں ریلیف اور طبی کیمپوں میں بھی گئے جو گوٹھ صدوری، لکھرا اور لسبیلہ میں قائم کیے گئے تھے۔
آئی ایس پی آر نے بتایا کہ انہوں نے ریلیف کے کاموں میں مصروف جوانوں سے بھی ملاقات کی اور متاثرہ افراد کی خدمت پر ان کی کوششوں کو سراہا۔
قبل ازیں آئی ایس پی آر نے جمعے کو جاری بیان میں کہا تھا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ آج (ہفتہ) سندھ اور بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر کے وہاں کی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف امدادی اور بچاؤ کی کوششوں میں مصروف فوجیوں سے ملاقات کریں گے۔
اس میں کہا گیا تھا کہ ہیڈکوارٹر آرمی ایئر ڈیفنس کمانڈ راولپنڈی میں ایک آرمی فلڈ ریلیف سنٹر قائم کیا گیا ہے تاکہ ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹوریٹ کے ساتھ مل کر ملک بھر میں سیلاب سے بچاؤ کی قومی کوششوں کی نگرانی اور ان کو مربوط کیا جا سکے۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ علیحدہ طور پر سیلاب سے متعلق امدادی سامان کی وصولی، نقل و حمل اور تقسیم میں مدد کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب سے متعلق امدادی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔