بیشتر سیلاب متاثرین ‘باتھ روم’ کی سہولت نہ ہونے پر شرمندہ اور پریشان
مون سون بارشوں کے بعد تباہ کن سیلاب سے متاثرہ سیکڑوں مقامی افراد پنجاب کے عارضی کیمپ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جہاں سڑنے والی بدبو ہے، سیلاب سے ملک کا تقریباً ایک تہائی حصہ زیر آب ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق پنجاب میں چھوٹے سے دیہی ریلوے اسٹیشن کے اردگرد درجنوں خیمے لگے ہوئے ہیں، ہر جگہ پانی موجود ہے صرف یہی ایک واحد خشک زمین ہے۔
خراب ہونے والی سبزیوں، ، بچ جانے والے کھانے کے ٹکڑوں اور کوڑے کے ساتھ وہاں پر جمع ہونے والے سیکڑوں سیلاب متاثرین اور مویشیوں کے اخراج کی وجہ سے یہاں پر بدبو ہے۔
دو ہفتے قبل سیلاب کی وجہ سے اپنی فیملی کے ہمراہ گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہونے والی زیب النسا بی بی نے بتایا کہ یہاں پر نہانے یا باتھ روم جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: راجن پور کے شہری خستہ حال مکانات میں واپس جانے پر مجبور
اسی طرح کی خیمہ بستیاں ملک کے جنوب اور مغرب میں پھیل چکی ہیں۔
ملک میں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب سے تقریباً برطانیہ کے رقبے جتنا حصہ متاثر ہے، جس سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں یعنی ہر سات میں سے ایک پاکستانی متاثر ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان خیموں میں سب سے بڑا مسئلہ باتھ روم کا ہے، جس سے صحت کو خطرات لاحق ہیں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے صورتحال سنگین ہے۔
پاکستان کے دیہات میں قدامت پسند مسلمان رہتے ہیں، بے گھر ہونے والی بہت ساری خواتین کو اپنی زندگی میں پہلی بار ان مردوں کے ساتھ رہنا پر رہا ہے، جو ان کے رشتہ دار نہیں ہیں۔
زیب النسا کا کہنا تھا کہ ہم پردے کے پیچھے رہتے تھے لیکن خدا نے اسے ہمارے لیے ہٹا دیا ہے۔
انتہائی شرمندگی
ان کا کہنا تھا کہ انہیں کھلے آسمان کے نیچے رفع حاجت کرتے ہوئے انتہائی شرمندگی ہوتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب درخت کے پیچھے سے کوئی آدمی انہیں اس وقت دیکھ لے جب وہ اپنی قمیض شلوار نیچے کرتی ہیں۔
شامین بی بی نے ابھی انہی جذبات کا اظہار کیا۔
بڑی تعداد میں مکھیوں اور مچھروں نے مصیبت میں مزید اضافہ کر دیا ہے، جس سے بیماری اور انفیکشن کے پھیلنے کا خطرہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘پانی اس وقت سر پر آن پہنچا، جب سب بستروں پر گہری نیند سورہے تھے’
متعدد خواتین نے رفع حاجت کے لیے سیلاب کے پانی میں جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ انہیں ریشزپڑ چکے ہیں۔
اے ایف پی نے جب دورہ کیا تو اس وقت فاضل پور کے کیمپ میں رضاکار ڈاکٹر احسان ایاز نے بتایا کہ باتھ روم نہ ہونا ایک ‘اہم وجہ’ ہے، جس کی وجہ سے جِلد کے انفیکشنز و دیگر بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
شامین اور ان کی بیٹی دن بھر بہت کم پانی پیتی ہیں، وہ بے آرم رہنے کو ترجیح دیتی ہیں، اس کے مقابلے کہ کہیں رفع حاجت کرتے ہوئے انہیں کوئی دیکھ نہ لے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب سورج غروب ہو جاتا ہے اور کیمپ میں اندھیرا چھا جاتا ہے، تو خواتین کیمپ سے دور کسی ویران جگہ کو تلاش کرتی ہیں۔
وہ باری باری جاتی ہیں تاکہ دیکھ سکیں اور اگر کوئی آدمی آرہا ہو تو خبردار کرسکیں۔
شامین نے بتایا کہ اگر کوئی فائدہ اٹھانے کے لیے آنے کا فیصلہ کرے تو ہمیں نہیں پتا کہ کیا کرسکتے ہیں۔
ایک اور خطرہ بھی موجود ہے۔
شامین بی بی نے بتایا کہ رات میں پانی کے اندر سے سانپ اور بچھو نکل آتے ہیں۔