طے شدہ کیسز کا ریکارڈ نہ رکھنے پر سپریم کورٹ کا ایف بی آر پر اظہارِ برہمی
سپریم کورٹ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ہدایت دی ہے کہ وہ ٹیکس کے معاملات پر حل شدہ کیسز کا ڈیٹا محفوظ رکھے کیونکہ یہ ادارہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے لکھے گئے فیصلے میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے کیسز کا ڈیٹا کو محفوظ نہ رکھ کر ایف بی آر نے اپنے افسران کے ساتھ ساتھ ٹریبیونلز اور عدالتوں کے کام میں بھی خلل ڈالا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے رکن ہیں جس میں جسٹس سید منصور علی شاہ بھی شامل تھے، اس بینچ نے فیصل آباد میں ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو کمشنر کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے 15 ستمبر 2021 کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل کی سماعت کی جس میں ایف بی آر کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔
یہ تنازع اس سوال کے گرد گھومتا ہے کہ کیا ٹیکس دہندگان کے ذریعہ لیبر اور کیریج سروسز فراہم کرنے کا معاہدہ 2001 کے انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) کے سیکشن 153 (ون سی) کے تحت آتا ہے اور اس طرح آرڈیننس کی دفعہ 153 (ون بی) اور (9) کے تحت ٹیکس دہندگان کی آمدنی کو حتمی ٹیکس نظام کے لیے لازمی ٹھہرایا جاتا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے 6 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں افسوس کا اظہار کیا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس کیسز کا ڈیٹا محفوظ رکھنے میں ناکامی ناقابل قبول ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی ایف بی آر کو ٹیکس دہندگان سے منصفانہ طریقے سے پیش آنے کی ہدایت
جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ایف بی آر اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برت رہا ہے لہٰذا اس آرڈر کی ایک کاپی چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد، بورڈ کے ہر رکن، سیکریٹری خزانہ، قانون و انصاف اور کابینہ ڈویژنز کو بھیجی جائے۔
عدالت نے ایف بی آر اور اس کے ان لینڈ ریونیو ونگ سے 2 ہفتوں میں رپورٹس بھی طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ایسے فیصلوں اور مقدمات تک رسائی کا لنک اگر موجود ہو تو فراہم کیا جائے۔
یہ معاملہ سماعت کے دوران اس وقت پیدا ہوا جب عدالت نے ایف بی آر کے وکیل ڈاکٹر فرحت ظفر سے پوچھا کہ کیا محکمہ نے رحمٰن انٹرپرائزز کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے؟
تاہم محکمے کے نمائندے اور ان کے وکیل اس سوال کا جواب نہیں دے سکے اور اس کے بجائے سندھ ہائی کورٹ کے پریمیئر مرکنٹائل کیس کا حوالہ دیا، جس میں ایف بی آر کے حق میں ایک مختلف نقطہ نظر اپنایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: غیر ملکی آمدنی کے اسٹیٹمنٹس پر سندھ ہائیکورٹ کا حکم امتناع معطل
علاوہ ازیں سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ رحمٰن انٹرپرائزز کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایف بی آر نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن فروری 2011 میں اسے خارج کر دیا گیا تھا۔
بعد ازاں ٹیکس ریفرنسز میں سے ایک (جس کا فیصلہ 2011 کے حکم سے پہلے ہی ہو چکا تھا) کسی نہ کسی طرح دوبارہ عدالت عظمیٰ میں پہنچا اور گزشتہ فیصلے کی بنیاد پر اپریل 2017 میں دوبارہ خارج کر دیا گیا۔
لہٰذا دونوں ہائی کورٹس کے فیصلے متضاد تھے کیونکہ رحمٰن انٹرپرائزز میں لاہور ہائی کورٹ کے مؤقف کو سپریم کورٹ نے ایک بار نہیں بلکہ 2 بار منظور کیا۔
موجودہ کیس میں عدالت نے کہا کہ سیکشن 153(9) میں مذکور سروسز مکمل نہیں ہیں، اس لیے لیبر اور کیریج سروسز کو چھوڑنا امتیازی سلوک ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ایف بی آر کو جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سے تعاون کی ہدایت
عدالت عظمیٰ نے مزید کہا کہ اس طرح ٹیکس ڈپارٹمنٹ کا سیکشن 153 (ون سی)، (6) اور (9) پر انحصار غلط ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون میں تبدیلی کی وجہ سے لاگو نہیں ہوا۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے ایف بی آر کی پٹیشن کو خارج کر دیا اور اس حقیقت پر اظہار برہمی کیا کہ ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ہائی کورٹ کے 2 مقدمات میں کیا ہوا اور اس کی وجہ ایف بی آر کی جانب سے ریکارڈ کی درستگی کی کمی ہے۔