• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

پاک-امریکا تعلقات باہمی احترام کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، وزیراعظم

شائع September 29, 2022
وزہراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب کا بحران ہمارا پیدا کردہ نہیں ہے—فوٹو: اے پی پی
وزہراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب کا بحران ہمارا پیدا کردہ نہیں ہے—فوٹو: اے پی پی
وزہراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب کا بحران ہمارا پیدا کردہ نہیں ہے—فوٹو: ڈان نیوز
وزہراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیلاب کا بحران ہمارا پیدا کردہ نہیں ہے—فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور امریکا ماضی کو بھلا کر دوسرے ممالک کی طرف دیکھنے کے بجائے باہمی احترام اور اعتماد کی بنیاد تعلقات بحال رکھنے چاہیئں۔

اسلام آباد میں پاک-امریکا تعلقات کی 75 ویں سالگرہ پر منعقدہ تقریب سےخطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کےدرمیان شان دار تعلقات کی خوشی منا رہے ہیں جو 75 برسوں پر محیط ہیں۔

مزید پڑھیں: افسوس ہے مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈالا حالانکہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں تھے، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ امریکا ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے پاکستان کو مکمل طور پر تسلیم کیا اور آنجہانی صدر ٹرومین نے قائد اعظم کو بہترین خط لکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے یاد ہے دوستانہ تعلقات میں یاد گار پروگرام بھی شروع کیے گئے جیسا کہ پی ایل 480 ہے، جس کے تحت پاکستان کو امریکا سے گندم کے پارسل موصول ہوئے اور یہ تعلقات عروج اور زوال کا شکار رہے لیکن تاہم ان وجوہات سے آگاہ ہیں۔

تعلقات میں گرم جوشی اور سرد مہری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر بات کرنے کا یہ موقع نہیں ہے لیکن ہم مختلف اوقات میں سرکاری اور نجی سطح پر ان پر بات کرتے رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں حقیقی معنوں میں یہ معمول اور دوستانہ تعلقات اعتماد، احترام اور باہمی اتفاق کی بنیاد پر بحال ہوں، دونوں طرف معاملات ضرور ہوں گے لیکن اگر ہم آگے بڑھے تو ہمیں اپنے تعلقات بہتر کرنے کے لیے راستے ملیں گے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے تعلقات کو افغانستان کی سطح پر یا چین کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اپنے انداز میں قائم ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ جب پاکستان توانائی کا بدترین بحران کا سامنا کر رہا تھا تو وزیراعظم نواز شریف نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم اپنے وسائل خرچ کر کے مزید 5 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے لیکن وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے انکار کیا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی تنقید مسترد، امریکا کا پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت کا دفاع

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے کہا پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں سے ہم جو حاصل کر رہے ہیں ان میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرا دھرنا ہوجائے اور سی پیک کو ڈی ریل کردیا جائے اور 2018 کے انتخابات میں ہمارے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کچھ نہ بچے۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں اس 5 ہزار میگاواٹس میں سے 3 ہزار 500 میگاواٹ امریکا کی بلیوچپ کمپنی نے فراہم کیا، یہ شفاف ترین سرمایہ کاری اور کم قیمت پر قائم منصوبہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کم وقت میں ان منصوبوں کو شروع کردیا گیا اور اس طرح ہم اپنے تعلقات دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جو شفافیت، اعتماد اور باہمی احترام کی بنیاد پر ہوں اور میں اس دوستی کا زبردست حامی ہوں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ماضی میں جو ہوا بھول جائیں، امریکا بھی ان تعلقات پر کچھ کہنا چاہتا ہوگا اور ہم بھی کہہ سکتے ہیں لیکن جہاں تک تعلقات کو دیانت دارانہ، بااعتماد اور سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے بحال کرنے کا تعلق ہے تو ہم غلط نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں سیکریٹری بلنکن اور صدر جوبائیڈن کے ساتھ تعمیری ملاقات ہوئی اور ہم سیلاب متاثرین کے لیے 5 کروڑ 60 لاکھ ڈالر امداد کا اعلان کرنے اور اب مزید ایک کروڑ ڈالر کا اضافہ کرنے پر ان کے مشکور ہیں۔

‘سیلاب کا بحران ہمارا پیدا کردہ نہیں’

شہباز شریف نے سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بحران ہمارا پیدا کردہ نہیں ہے، ہم ترقی پذیر ملک ہیں، ہم اپنے پاؤں پر سخت محنت کے ذریعے کھڑا ہونا چاہتے ہیں اور پاکستانی قوم بڑی مضبوط، حوصلہ مند اور بہادر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی انتہائی تعلیم یافتہ اور محنتی ہے، جس میں سائنس دان، بینکرز، اساتذہ اور سیاست دان ہیں، یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں مکمل آزادی ہے اور ان کے اقدامات ملک کے انتہائی کارآمد ہیں۔

‘امریکا ہمارا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے’

ان کا کہنا تھا کہ امریکا ہمارا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، یو ایس ایڈ کی سربراہ اور دیگر اداروں کے نمائندے یہاں آئے اور انہوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور بہت دکھی تھیں اور اپنے تاثرات سے آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہم مل کر موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی سے نمٹ سکتےہیں، وزیر خارجہ

انہوں نے کہا کہ یہ بحرانی صورت حال ہم نے پیدا نہیں کی لیکن انسانوں کی پیدا کردہ ہے، جس میں ہمارا حصہ نہیں ہے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں، کپاس، چاول، گنا اور دیگر فصلیں تباہ ہوئیں، اربوں ڈالر نقصان ہوا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 400 بچوں سمیت 1600 سے زائد شہری جاں بحق ہوئے، کچے اور پکے گھر دریا برد ہوگئے اور بے گھر ہوگئے ہیں اور خیموں میں رہ رہے ہیں لیکن میری اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری اور فرض ہے، میرے ساتھیوں اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں وہ کافی نہیں ہے، طلب اور رسد میں وسیع خلا ہے جو بڑھ رہا ہے اور یہ پہلا مرحلہ ہے اور بحالی کا آخری مرحلہ آنے والا ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس کے لیے پیسے درکار ہوتے ہیں، یہ کام مفت نہیں ہوتے اور اب ہمیں ضرورت ہے کہ عالمی برادری ہمارے ساتھ کھڑی ہو اور تعاون کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہم رقم کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم امداد کی بات کر رہے ہیں، انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے فنڈز اور ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کا روزگار، تجارت، زراعت، صنعت اور دیگر شعبے بحال ہوں، اس کے لیے ہمیں امداد کی ضرورت ہے جو ہمارا حق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی پر الزام عائد نہیں کر رہے لیکن ہم صرف ایک فیصد سے بھی کم کاربن کا اخراج کرنے والا ملک ہیں، ہم امریکا کے ساتھ شان دار تعلقات کے دور میں جانا چاہتے ہیں جہاں ہمارے تعلقات دوسروں سے مشروط نہ ہوں بلکہ اپنے شرائط پر ہوں۔

سیلاب متاثرین کیلئے امریکی امداد 6 کروڈ 60 لاکھ ہوگئی ہے، سفیر

سرکاری خبرایجنسی اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے عوام بدستور پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے لیے امریکی تعاون 6 کروڑ 60 لاکھ ڈالر سے زائد ہوگئی ہے جو دوستی کا اظہار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم دوستوں اور شراکت داروں کے طرح ضرورت کے وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور یہ شراکت داری دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہے۔

امریکی سفیر نے کہا کہ دہائیوں سے پاکستان کو 32 ارب ڈالر سے زائد امریکی امداد ملی ہے اور پاکستانی عوام کو فائدہ ہوا ہے۔

اس موقع پر امریکی سفیر نے وزیراعظم کے ساتھ باہمی تعلقات اور تعاون سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024