’پاکستان کی مجموعی پیداواری صلاحیت میں کمی‘
ورلڈ بینک کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران بیشر تر کمپنیوں اور فارم ہاؤسز کی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی پیداواری صلاحیت کے باعث پاکستان کی مجموعی پیداواری صلاحیت جمود کا شکار رہی یا اس میں کمی واقع ہوتی رہی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’سوئمنگ ان سینڈ ٹو ہائی اینڈ سسٹین ایبل گروتھ‘ کے عنوان سے شائع ورلڈ بینک کی رپورٹ میں پاکستان میں ترقی اور اس کے بنیادی اہم ترین پہلوؤں اور عوامل جیسے کہ پیداواری صلاحیت، سرمایہ اور ہنر مند افرادی قوت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
بدھ کے روز جاری ہونے والی رپورٹ جسے ’پاکستانز کنٹری اکنامک میمورنڈم 2022‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان میں ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجے بینہیسن کی رہنمائی میں تیار کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مارچ میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں واضح کمی
2020 میں 23 فیصد کمی کے ساتھ کووڈ 19 نے کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی میں اضافہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق پیداواری کمی ملک کے مختلف حصوں میں واقع مختلف شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں میں دیکھی گئی جب کہ خاندانی ملکیت میں کام کرنے والی فرموں میں زیادہ کمی کی واضح طور پر شناکت کی جا سکتی ہے۔
زراعت کے شعبے میں پاکستان کی اہم فصلوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کی پیداواری صلاحیت میں کمی ان پٹ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہوئی جب کہ گزشتہ دہائیوں کے دوران اس شعبے کی پیداوار میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: حکومت کی نظریں ملکی مجموعی پیداوار 4 فیصد تک لے جانے پر مرکوز
اس میں کہا گیا ہے کہ اس کے ساتھ ہی ملک کے تمام صوبوں میں زیادہ تر فصلوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن خیبرپختونخوا یا بلوچستان کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ کی کارکردگی قدرے بہتر ہے۔
رپورٹ کے مطابق کم پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے وسائل کا استعمال مطلوبہ ضرورت سے بہت کم ہے کہ پیداواری صلاحیت میں کمی کی تلافی کر سکے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زراعت کے شعبے میں پنجاب میں فارمز کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہا بھی وسائل زیادہ پیداواری صلاحیت کے فارمز کے بجائے کم پیداواری فارموں کا رخ کر رہے ہیں۔