ٹرانسجینڈر بچوں کی حالتِ زار معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ ہے، وفاقی شرعی عدالت
وفاقی شرعی عدالت کا کہنا ہے کہ ٹرانسجینڈر بچوں کی حالتِ زار معاشرے کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانسجینڈر پرسن (حقوق کا تحفظ) ایکٹ 2018 کو چیلنج کرنے کی متعدد درخواستوں پر سماعت ہوئی، کیس کی سماعت چیف جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین شیخ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی تھی۔
وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے زور دیا کہ ٹرانسجینڈر بچے مجرمان کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے ریمارکس دیے کہ یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ ایسے بچوں کو ان کے اہل خانہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ بچے مجرموں کے ہاتھوں جنسی زیادتی اور بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں۔ْ
انہوں نے مزید کہا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ٹرانسجینڈر بچوں کی زندگی مزید مشکل ہوجاتی ہے۔
سماعت کے دوران ’خواجہ سرا‘ کمیونٹی کے نمائندہ نے ٹرانسجینڈر کے لیے ملک میں انتہائی خراب صورتحال پر خدشات کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے وزارت انسانی حقوق کے نمائندہ سے ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے لیے معاشرے کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے سوال کیا تاہم وزارت، چیف جسٹس کے سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکی۔
وزارت کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے وزارت انسانی حقوق کو اگلی سماعت میں ’قابل قبول جواب‘ جمع کرانے کی ہدایت کی۔
عدالت نے وزارت کو 15 دسمبر تک ٹرانسجینڈر بچوں کے تحفظ کے لیے سہولیات فراہم کرنے کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹرانسجینڈر پرسن (حقوق کے تحفظ) ایکٹ 2018 کی دفعہ 6 (اے) کے مطابق حکومت اور وزارت انسانی حقوق کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹرانسجینڈرز کے تحفظ، بحالی، ریسکیو کے علاوہ انہیں طبی امداد، نفسیاتی سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانسجینڈر بچے جنہیں ان کے اہل خانہ نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور ایکٹ کی دفعہ 2 (این) (ایک) کے تحت ایسے بزرگ افراد جو انٹرسیکس کے درجے میں آتے ہیں، ان تمام لوگوں کے تحفظ کے لیے انہیں گھر یا رہائش فراہم کرنا بھی حکومت اور وزارت انسانی حقوق کی ذمہ داری ہے۔
عدالت میں مدعا علیہ کے طور پر ٹرانسجینڈر حقوق کی سرگرم رکن ببلی ملک، نایاب علی کے علاوہ نادرا، وزارت انسانی حقوق، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور کراچی کے جینڈر انٹرایکٹو الائنس (جی آئی اے) کے نمائندگان موجود تھے۔
سماعت کے دوران مذہبی جماعتوں کے نمائندگان نے بھی شرکت کی جبکہ ایک اور ٹرانسجینڈر سرگرم رکن ریما شریف نے کیس میں فریق مخالف کے لیے درخواست جمع کروائی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ دو ہفتوں کے اندر ٹرانسجینڈر (جوپیدائشی طور پر مکمل طور پر مرد نہ مکمل طور پر عورت ہیں) کی شناخت کے لیے سائنس اور طبی دلائل دیے جائیں۔
عدالت نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے دو ہفتوں کے اندر دلائل پیش کرنے کی ہدایت کی۔
قومی اسمبلی نے مئی 2018 میں ٹرانسجینڈرز کو قانونی شناخت دینے کے لیے ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹ) ایکٹ منظور کیا تھا، اس ایکٹ کے تحت خواجہ سراؤں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک کرنے والا شخص سزا کا مرتکب ہوگا۔
قانون کے تحت ٹرانسجینڈر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سرکاری اداروں میں بطور ٹرانسجینڈر رجسٹر ہوسکتے ہیں یا خود اپنی پہچان لکھوا سکتے ہیں۔
یہ قانون پسماندہ طبقے کو تحفظ فراہم کرتا ہے، البتہ یہ قانون قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد کئی قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔
درخواست گزاروں نے 2021 میں اس قانون کو اس بنیاد پر چیلنج کیا تھا کہ یہ ’اسلامی احکامات‘ کے خلاف ہے، جس کے بعد رواں سال ستمبر میں وفاقی شرعی عدالت میں اس قانون کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔